یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں: سید محمد اشرف کچھوچھوی

HomeNewsUrdu News Articles

یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں: سید محمد اشرف کچھوچھوی

17 جون، بروز ہفتہ، نئی دہلی (پریس ریلیز) اس وقت ملک میں یکساں سول کوڈ پر بحث ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے کیونکہ لاء کمیشن آف انڈیا نے لوگوں سے تجاویز ط

17 جون، بروز ہفتہ، نئی دہلی (پریس ریلیز)
اس وقت ملک میں یکساں سول کوڈ پر بحث ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے کیونکہ لاء کمیشن آف انڈیا نے لوگوں سے تجاویز طلب کی ہیں اور حکومت ہند اسے آنے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں لانے پر غور کر رہی ہے، ایسے وقت میں آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ کے قومی صدر اور ورلڈ صوفی فورم کے چیئرمین حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ حکومت کی طرف سے اسے پیش کیا جا رہا ہے یہ صرف نفرت کے لئے استعمال کرنے کی گھناؤنی سازش ہے جب کہ لوگ ابھی تک حقیقت سے ناواقف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یکساں سول کوڈ ایک ملک ایک قانون کی بات ہے اور اس سے نہ صرف مسلم پرسنل لا متاثر ہوتا ہے بلکہ ملک میں ایسے بہت سے قوانین موجود ہیں جن کا اطلاق مختلف طبقوں، مختلف گروہوں، مختلف ذاتوں پر ہوتا ہے۔ کیایکساں سول کوڈ نافذ ہونے پر وہ قانون بھی ختم ہو جائیں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔
کیا جس طرح کشمیر سے آرٹیکل 370 کی کچھ دفعات کو منسوخ کیا گیا ہے ویسے ہی ملک کی دیگر ریاستوں میں نافذ آرٹیکل371کو بھی اس کے بعد ختم کر دیا جائے گا؟ کیا ہندو غیر منقسم خاندان کو حاصل ٹیکس چھوٹ بند کر دی جائے گی یا یہ ہندوستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر دی جائے گی؟ یہی نہیں، عام طور پر صحت مند ذہن رکھنے والا، بغیر کپڑوں کے معاشرے میں کھلے عام گھومنا جرم کے زمرے میں آتا ہے، لیکن جین بابا اور ناگا سادھوؤں کے لیے نہیں، کیا یہ بھی ختم ہو جائے گا؟ اور دوسری طرف سکھ برادری کو بال رکھنے کا جو خصوصی حق حاصل ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا؟ اسی طرح قبائلی معاشرے کے لیے کچھ دفعات ہیں جن میں خواتین کو کئی مردوں سے شادی کرنے کا حق ہے اور جنوبی ہند میں برہمنوں کو کئی عورتوں سے شادی کرنے کا حق ہے، کیا اس کو بھی چیلنج کیا جائے گا؟ہم حکومت سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ واقعی ایک ملک ایک قانون کی بات کر رہے ہیں؟ جس میں ذات پات، مذہب اور علاقے کی تفریق کے بغیر سب کو ایک قانون پر عمل کرنا ہوگا؟ایسے میں جب اس قانون پر بہت ساری برادریاں اور تقریباً ہر مذہب کے لوگ اٹل ہیں تو پھر صرف مسلمان ہی اسے اپنا مسئلہ کیوں سمجھ رہے ہیں؟ کیا اس سے صرف مسلمانوں پر ہی اثر پڑے گا اور اگر ہاں تو اسے یکساں سول کوڈ کہنا بند کر دیں یہ مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے کا محض ایک مسودہ ہے جو مکمل طور پر غیر آئینی ہوگا۔
لیکن اگر ہم یکساں سول کوڈ کی بات کر رہے ہیں تو ملک کی دیگربرادریوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ اپنے خصوصی حقوق سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں؟ کیونکہ یکساں سول کوڈ سے سب سے زیادہ نقصان دلت اور قبائلی سماج کو ہوگا کیونکہ اس سے ان کا ریزرویشن ختم ہو جائے گا، وہیں دفعہ 341 کا مسئلہ مسلمانوں کو بڑی راحت دے سکتا ہے، یا تو پورا ریزرویشن ختم ہو جائے گا یا پھر مسلمان کو بھی دلتوں کی طرح ریزرویشن ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سے اس کو پھیلایاجا رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نفرت انگیز ایجنڈا ہے جس سے ہندستانی عوام کو دھوکہ دینے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ جو مسلم تنظیمیں اور رہنما براہ راست اس قانون کے خلاف کھڑے ہیں ہمارا مشورہ ہے کہ وہ پہلے حکومت سے سوال کریں کہ یہ ایک ملک، ایک آئین کا معاملہ ہے یا صرف مسلم پرسنل لا کو ختم کرنا ہے؟کیونکہ بنا سمجھے مخالفت نقصان دہ ہوگی اور اس سے نفرت کے کاروبار کو مضبوطی ملے گی۔

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0