HomeUrdu News ArticlesArticles

پھر سی غلامی کی راہ پر گامزن ملک: عبدالمعید ازہری

کل ہم انگریزوں کے غلام تھے ۔ آج ہماری غیر اخلاقی رواداری ، نفرت و تشدد، مذہب کے نام پر انتہا پسندی،بد عنوان سیاست اور مجبور اور کمزور قانون ہمیں غل

کل ہم انگریزوں کے غلام تھے ۔ آج ہماری غیر اخلاقی رواداری ، نفرت و تشدد، مذہب کے نام پر انتہا پسندی،بد عنوان سیاست اور مجبور اور کمزور قانون ہمیں غلامی کی زنجیریں پہنا رہا ہے ۔نفرت و تشدد کی اس آگ میں صرف اور صرف انسان جل رہا ہے ۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے ۔مذہب اپنی کتابوں میں سسک رہا ہے ۔مذہبی رہنما اپنی عبادت گاہوں میں قید ہو گئے ہیں۔بد عنوان سیاست کا ننگا ناچ امن و آشتی ، اخوت و محبت کے چہرے پر تیزاب ڈال رہا ہے ۔اس تاریک راہ میں ہمیں امید ہے تو بس اتنی کہ ہر فرعون کے لئے کو ئی موسیٰ ضرور ہے اور ہر یزید کیلئے کو ئی حسین۔آج انہیں دونوں کرداروں کی ضرورت ہے ۔ہر یزید کا تخت پلٹے گا اور ہر فرعون غرقآب ہوگا کیونکہ ہر ظلم کی ایک حد ہے ،ہر زیادتی کی ایک سیما ہے۔ انسان کی فطرت اگر چہ صبر اور ضبط ہے لیکن اس کی بھی ایک مدت ہے ۔جیسے نیند کی ایک مدت ہے ۔اس سے زیادہ نہیں سو سکتا۔اگرکسی دوا کا سہارا لیا ہے، تو اس کا بھی ایک وقت ہے لیکن اس کے بعدبہر حال اسے بیدار ہونا ہے۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ انسان اگر حساب پر آ جائے تو حساب کا بھی حساب کتاب ہو جاتا ہے کیونکہ انسان اس بڑے حساب کرنے والے کا ایک مظہر ہے۔ اس انسان میں بھی اسی کا نور ہے۔تو انسان جب نیند یا بے ہوشی کے بعد بیدار ہوتا ہے، تو اس کی بیداری بھی عجیب ہوتی ہے۔یہ بیداری ایک تاریخ لکھتی ہے۔ وہ سارا حساب لیتی ہے۔ وہ دریا کو پیاسا اور سمندر کو بے سہارا کر دیتی ہے۔وہ تاریخ کی طرح ہے کہ اگرچہ خاموش ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بے حس ہے۔وہ اپنا پورا کام کرتی ہے۔جب وقت آتا ہے، تو آئینہ کی طرح سب کچھ سامنے رکھ دیتی ہے۔
انسان کی فطر ت جہاں ایک طرف محبت اور ہمدردی ہے وہیں دوسری طرف غصہ اور لڑائی بھی ہے۔ بسا اوقات ایک لکیر بھی کھنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ لکیر زیادہ دیر تک نہیں رہتی۔ ایک دن مٹتی ہے ۔ گنگا جمنا کے بیچ کا فرق ختم ہوتا ہے ۔ پھر سمندر کی لہروں کی مانند ایک انقلابی موج اٹھتی ہے جو اپنی رفتار سے ساری برائیوں کو ختم کر دیتی ہے ۔
در اصل صبرو ضبط کا یہ وقفہ ایک موقعہ ہے۔غلطیوں کو آسانی سے ختم کرنے کے لئے کہ اگریہ غلطیاں انسانی فطرت کے تحت ہوئی ہیں تو ابھی ختم کر لو۔ ورنہ جب پانی سر سے اوپر ہوگا اور حساب پر بات آئیگی تو ایک انقلاب آئے گا ۔ اس کو برداشت کرنے کی سکت کسی بھی مجرم یا ظالم میں نہیں ہوگی ۔اسی لئے انسا ن صبر کرتا ہے۔ برداشت کرتا ہے لیکن کچھ لوگ اسے انسان کی کمزوری سمجھ بیٹھتے ہیں ۔
تو موقعہ ہے سمجھ جاؤ انسا ن کے صبر و تحمل ، ضبط و استقامت کا امتحان نہ لو ۔ اس کی باندھ ٹوٹی تو سنامی ہوگی اور اس کی رفتار کو پکڑ نہیں پاؤگے۔
((انسانیت سے بڑھ کر کوئی دھرم نہیں ہو سکتا۔دھرم خود مانو شدھی کرن کے لئے ہوتا ہے۔وہ ذاتی اور پرسنل ہوتا ہے ۔اگر کوئی دھرم یا مذہب مانو ہت کے خلاف ہے تو وہ دھرم نہیں ہو سکتا ۔ جو بھی دھرم کی آڑ میں انسانیت کے خلاف اور مانوتا کے وپریت سیاست کرے وہ سچا دھرم بھکت نہیں ہو سکتا۔ ایسی وچار دھارا رکھنے والا کبھی دیش کا نہیں ہو سکتا ۔ہمارا نہیں ہو سکتا۔))
ہندوستان کی تاریخ رہی ہے اس ملک نے ساری دنیا کو تہذیب اور کلچر سکھایا ہے۔ انسانی ہمدردی آپسی بھائی چارگی کا درس دیا ہے ۔ وطن عزیز کے قیمتی باشندوں نے پوری دنیا کو سکھایا کہ یہ دیکھو الگ نام ، الگ مذہب ، الگ دھرم ، الگ سماج، الگ ذات ،اور الگ برادری کے لوگ ایسے ایک ساتھ رہتے ہیں۔اور یہ روایت اب سے کچھ برس پہلے تک قائم تھی ۔لیکن اب اس میں بھید بھاؤ اور خلش کا گھن لگ گیا ہے ۔اس میل ملاپ اور ملک کی ترقی کی نیا میں نفرت اور بدعنوانی کا سوراخ ہو گیا ہے۔یہ اس ملک کی قابلیت پر سوال ہے ۔ اس کی رہنمائی پر سوال ہے ۔ جس ملک نے ایک سے ایک قد آور اور مثالی لیڈر اور رہنما پیدا کئے ہوں آج اسی ملک کی لیڈر شپ پر سوال ہے ۔ جس ملک کا مقام اس ملک میں بسنے والے ہر مذہب و ملت کی آپسی محبت اور بھائی چارگی کی بنیاد پر بلند سے بلند تر ہونا چاہئے تھا آج نیچے ہوتا جا رہا ہے۔آج اس ملک کی حفاظت کے ذمہ داروں اور اس کو چلانے والوں میں یہ احساس بھی نہ رہا کہ دیکھ سکیں کہ اس ملک کی کیا حالت ہو گئی ہے ۔روتا ہے یہ ملک اپنے پرستاروں پر کہ مجاہدین آزادی نے کم سے کم ایسے ملک کا سپنا تو نہیں دیکھا ہوگا ۔اس ملک کی ترقی اس کی قابلیت اور اہلیت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہے ،حد تو یہ ہے کہ اب تو وہ نام جو کبھی عزت کی علامت تھے اب بدنام ہوکر گالی بن گئے ہیں ۔ نیتا ایک ایسا لفظ ہے جوبڑے فخر سے لیا جاتا تھا لیکن اب ایک طنز کی گالی بن کر رہ گیا ہے،ایک بڑا سوال ہے کہ ایسا کیا ہوا۔ اس ملک میں اور وہ کون سی ایسی نئی مصیبت آئی کہ ہم ا س میں ایسے پھنسے کہ نکلنے کے راستے بند ہو گئے اور ہم نے ملک کو اس حال میں پہونچا دیا ۔
اس بڑے سوال کا جواب آپ کو دینا ہے کیونکہ جن ذمہ داروں سے یہ سوال ہے اس میں آپ کا نام بھی شامل ہے اور تاریخ رہی ہے کہ آپ نے جواب دیا ہے۔ اور قرارا جواب دیا ہے ۔آج پھر اس ملک کو اس جواب کی ضرورت ہے۔آج ضرورت ہے۔آج یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر ایک کسان جو اپنے خون کو پسینہ کی طرح بہاتا ہے۔پاؤں تلے کا پسینہ سر سے بہہ کر بنجر زمین کو گیلہ کرتا ہے۔ اتنی محنت کرنے کے بعد بھی وہ کسان بھوک سے خود کشی کر لیتا ہے۔جس ملک کی ترقی اس کے کسان اور اس کی محنت سے ہو آخر روہی بھکمری کا شکا ر کیوں ۔ظلم و زیادتی کے شکنجہ میں جکڑا ہوا کیوں ہے؟کوئی بھی اناج ہو، اس کو اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف یہ کسان اپنی مجبوری اور بے چاری کی وجہ سے جب اناج بیچتا ہے، تو اس کو اس کی ضرورت پر قیمت نہیں ملتی۔ضرورت کے لئے اسے اپنا حق گوانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسی اناج کو اس سے دس گنا دام میں خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔پہلے وہ مجبور کیا جاتا ہے پھر اس کے بعد مظلوم کیا جاتا ہے ایسا کیوں ؟نعرہ ہے ملک ترقی کر رہا ہے ۔ ہاں ترقی ہو رہی ہے لیکن ترقی وہ کر رہا ہے جو پہلے سے ترقی یافتہ ہے اور رہا بے چارہ غریب تو غریب کا غریب رہا۔ اس کی غریبی میں ترقی ضرور ہوئی ہے۔ایک تو اس غریب اور کسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں اور اگر سواسکیموں کا اعلان کر کے ایک کام کیا بھی تو بڑی مشکل سے غریب تک پہونچتا ہے۔ اس تک پہونچتے پہونچتے وہ کسی ضرورت کی نہیں رہ پاتی۔ سرکاری غریبوں کی فہرست میں ایسے ایسے غریبوں کے نام ہیں جن کے گھر میں کئی غریب مزدوری کر کے اپنے پریوار چلاتے ہیں۔واہ رے ہندوستان کے ایسے غریب اور ایسی غریبی اور ایسے لوگوں کو غریب تسلیم کرنے والے غریب شناس!آج اگر دیکھا جائے تو راشن کارڈ ان کے نا م زیادہ بنے ہوتے ہیں جن کے گھر میں اناج اور تیل کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی اسی کے پڑوس میں رہنے والے ایک مزدور کو ہوتی ہے ۔
آخر میں عام آدمی ہی کیوں پستا ہے ؟کیا مظلوم ہونا اس کی غلطی یا اس کا جرم ہے؟یا پھر ایک عام آدمی ہونا ہی اس کی غلطی ہے۔ پھر تو پیدا ہونا ہی اس کی سب سے بڑی بھول ہے۔اگر ایسا نہیں تو پھر ایسا کیوں؟
ایک تو عام آدمی کے لئے کوئی سہولت نہیں اور اگر کسی طر ح سے کوئی انتظام کر دیا گیا تو اس تک پہونچنا مشکل اور اس تک کٹ چھٹ کر پہونچی بھی تو اسے اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایسا کیوں؟
ایک عام آدمی کو کیا چاہئے ؟انفرادی زندگی میں کھانے کے لئے سکون سے دو وقت کی روٹی ،بدن ڈھکنے کے لئے دو چند کپڑے اور سر ڈھکنے کے لئے ایک چھت۔ اور اجتماعی زندگی میں سبھی کو چاہئے انصاف اور اس کی حفاظت۔ جو ملک کا ذمہ دار اس ملک میں بسنے والوں کی حفاظت نہ کر سکے وہ کیا حکومت کرے گا اور کیا رہنمائی کرے گا ؟جن رہنماؤں کی فکر انسان کو قتل کر کے جانوروں کی حفاظت ہو ان سے انسانیت کی امیدکرنا خود کو دھوکہ دینے کے سواء کچھ نہیں۔
آج کل ہر سیاسی نیتا عام آدمی ہے۔ جو عام آدمی کی زندگی سے واقف نہیں۔ ان کی ضروریات کا اسے علم نہیں۔ وہ توشاید سارے گاؤ ں کے ناموں سے واقف نہ ہو۔ وہ جو ہوا میں اڑ کر آئے۔ ہوا میں باتیں کرے اور ہوا ہو جائے۔ پھر ضرورت پڑے تو پانچ سال بعد آئے ۔ ہوا بازی کرے اور پھر ہو جائے۔ وہ کیا عام انسا ن کے مسائل حل کرے گا۔اب ہمارے مسائل اس کے ہاتھ میں ہوں جو عام آدمی میں رہا ہو۔ اس کے درد کو محسوس کیا ہو۔عام آدمی میں بیٹھا ہو اور عام آدمی ہو۔
ایک عام آدمی کی عام طور پر روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ تین جگہ ضرورت پڑتی ہے اور وہ اس جگہ اپنے ضرور ت پوری کرنے جا تا ہے۔اگر آپس میں کوئی واد وواد ہوگیا تو اس کے حل کے لئے آدمی تھانہ پہنچتا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ وہاں اسے انصاف ملے گا۔کیونکہ اس کو تھانہ کی ضرورت ہی اس لئے پڑی کہ اس کے ساتھ کچھ زیادتی ہوئی ہے اور جس نے کی اسکے ساتھ زیادتی ہے اس سے وہ ایسے عام طریقے سے نہیں نپٹ سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شاید اسے تھانہ جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ بہر حال وہ بڑی امید لیکر وہاں پہونچتا ہے۔ اس کے بعد اگر مسئلہ اور سنجیدہ ہوتا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔دوسری بڑی ضرورت اسپتال کی ہے اور یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ ایک ضرورت مند انسان کے منہ سے ڈاکٹر کو بھگوان کا درجہ دیتے سنا گیاہے۔ اتنی زیادہ امید ہوتی ہے اور اس سے بھی زیاوہ ہو تا ہے بھروسہ۔اس کے بعد اسکول بجلی پانی وغیرہ۔ آج کے ترقیاتی دور میں ایک اور ضرورت اور امید کا راستہ ایک عام آدمی کو نظر آیاہے وہ ہے میڈیا ۔ جس کے ذریعہ وہ اپنی بات اور حق کی آواز دوسرے لوگوں کو پہونچا سکے، اسی وجہ سے اس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔
اب ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ ایک عام انسا ن کے لئے تشکیل شدہ یہ سہولیات کس قدر کا م کر رہی ہیں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ ہمیں ہر شعبہ اور اس کے نظام کو دیکھنا ہے۔ جیسا کہ پہلے یہ بات کہی جا چکی ہے کہ کچھ بھی مٹتا نہیں ہے۔ سب سامنے آتا ہے ۔ اب اسے دیکھنا اور طے کرنا ہے کہ اب اس ملک کی باگ ڈور کن ہاتھوں میں ہو۔عدل کے نام پر ظلم اور وکاس کے نام پر وناش کی سیاست کر نے والے ہاتھوں میں یا مجبوری کا بہانہ بناکر اس ظلم و زیادتی پر پردہ ڈالنے والوں کے کندھوں پر؟ یا پھرآج کے انسانوں کو ایسی مسیحائی نصیب ہوگی جو انسانیت کی طاقت دکھائے تو بڑے بڑے بت گر جائیں ۔ جو سیاست کے مہا رتھیوں کو سیاست کا پاٹھ پڑھائے ۔، مجبوری کا ڈھونگ رچ کر ذمہ داری سے بھاگ اس ملک کو کھوکھلہ کرنے والی سیاست کو لگام لگائے اور کچھ ہی دنوں میں وہ کر دکھائے جو جو پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں ہوا تھا ۔
کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ان تھانوں کہ حالت کیا اور کیوں ہے؟وقت و حالت کے کسی مارے ہوئے سے اس کی داستان سنئے۔
اب تو یہ عام قصہ یا لطیفہ بن گیا ہے کہ تھانہ میں تو جیسے کسی مظلوم کی رپورٹ درج نہیں ہوگی۔بلکہ الٹا وہ اس بات کا مجرم ہوگا کہ اس نے اپنے اس حق کا استعمال کیوں کیا ۔وہ جن پر ہم بھروسہ کرتے ہیں ۔جن کو ہماری حفاظت کے لئے بٹھایا گیا ہے۔ وہ کچھ تو خود ہی خوف زدہ ہیں اورکچھ دوسروں کو کئے رہتے ہیں ۔
عدالتوں کا بھی حال کچھ الگ نہیں ہے۔ ایک مظلوم کو انصاف ملتے ملتے اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے۔ایک تو اس نے عدالت کا دروازہ ہی اس لئے کھٹکھٹایا کہ وہ اپنے مد مقابل سے سیدھے لڑ نہیں سکتا ۔ یہاں آکر اس نے انتظار کی ایک اور لڑائی مو ل لے لی۔
اسپتال بھی اپنی بے بسی پر رو رہے ہیں۔ وہ خود مریض ہو چکے ہیں۔ دوسروں کا علاج بھلا کیسے کرے گا؟
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری خلش اتنی نہ بڑھ جائے کہ اس کا اثر ہمارے ملک کی جمہوریت پر پڑنے لگے۔آج جو ماحول ہے یا جو لڑائی ہے وہ کسی مذہب کے خلاف کسی مذہب کی نہیں ہے،بلکہ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے ۔آج کی غیر انسانی سیاست اسے مذہب اور عقیدت کا نام دیکر اس میں نفرت تشدد کا تیل ڈال کر آگ کو اور بھڑکا رہے ہیں۔حالات نازک ہیں ۔ ہم پھر سے غلام ہوتے جارہے ہیں۔ اس غلامی سے آزادی کیلئے ہمیں پھر سے مل کر لڑنا ہوگا ۔ ورنہ یہ آگ دھیرے دھیرے پورے ملک کو جلاکر راکھ کر دیگی ۔آج ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ خاص طور پر مذہبی رہنماؤں کی ۔ جومذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی ہیں۔ جنہونے اپنے کلچر اور تہذیب سے پورے ہندوستان میں ایک چھاپ چھوڑی ہے۔ یہ ملک صوفی سنتوں کا ملک ہے۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کی داستانیں صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سنائی جاتی ہیں۔تو ایک بار ہمیں مل کر پھر بتانا ہے کہ یہ وہی ملک ہے اور وہ روایت آج بھی ہے۔ ہمیں اپنے وطن عزیز اور اس کی ہزاوں سال کی تہذیب جان کی طرح پیاری ہے۔ہم اس کی پاس داری ہر حال میں کریں گے۔ہم کسی بھی قیمت پر اس ملک کی امن و شانتی کی فضا میں نفرت کا زہر نہیں بھرنے دیں گے۔اور جو اس طرح کی کشش کرے گا وہ اس ملک کا وفا دار نہیں ہو سکتا اور اس ملک کا وفادار نہیں وہ ہمارا وفادار کب ہوگا۔
***
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob:09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0