ورلڈ صوفی فورم کے بینرتلے اشرف ملت کا دورۂ امریکہ وکناڈا

HomeArticle

ورلڈ صوفی فورم کے بینرتلے اشرف ملت کا دورۂ امریکہ وکناڈا

امکانات ومسائل، سنی صوفی مسلمانوں کی ترجمانی کے تناظر میں۔ از قلم:مولانا مقبول احمد سالک مصباحی،قومی ترجمان:آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ،نئی دہلی آ

امکانات ومسائل، سنی صوفی مسلمانوں کی ترجمانی کے تناظر میں۔
از قلم:مولانا مقبول احمد سالک مصباحی،قومی ترجمان:آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ،نئی دہلی

آل انڈیا علماو مشائخ بورڈ ہندوستان کی عظیم غیر حکومتی تنظیم ہے، اس کی تشکیل کے مقاصد میں سب سے اہم مقصدیہ ہے کہ ہندوستان میں سنی صوفی مسلمانوں کا ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم ہو جہاں سے اپنی جمہوریت اور اکثریت کی مؤثر آواز بلند کر سکیں۔گزشتہ ستر(70) سالوں سے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ زبردست اکثریت ہوتے ہوئے بھی سیاسی و سماجی حیثیت سے حاشیہ پر ہیں حکومت کے لیے بھی اور عام ہندوستانیوں کے لیے بھی مکمل طور سے ناقابل التفات ہیں۔ ان کی داخلی صورت حال کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے رنجیدہ اور اپنے چھوٹے چھوٹے حلقوں میں محصور ومسرور ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار ان میں سے کسی کی آواز اٹھتی بھی ہے تو بلند ہونے سے پہلے ہی دب جاتی ہے یادبا دی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں سنی صوفی آواز کو بلند کرنے کے لیے آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہمارے لیے وجہ اشتراک صرف دو باتیں ہیں سنیت اور خانقاہیت جو بھی سنی ہے اور خانقاہی ہے وہ ہمارا ہے۔ سیاست اور سماج کی سطح پر جب بھی اجتماعیت کی ضرورت ہوگی ہم سب کو جمع کریں گے اور سب کے اتفاق سے سنی صوفی مسلمانوں کی آواز بلند کریں گے۔ رہے خانقاہیوں کے داخلی اختلافات تو وہ ہمارے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتے، ذاتی اختلافات کی حیثیت ایسی نہیں ہوتی جس سے ہماری اجتماعیت متاثر ہو۔
آل انڈیا علما ومشائخ بورڈنے ملکی سطح پر ملک کے مختلف خطوں میں مسلم مہا پنچایت،اور دیگر ناموں سے بڑے بڑے اجتماعات کرکے قوم مسلم میں اجتماعی بیداری کی روح پھونک دی،اورعوام میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جوش وخروش صاف نظر آنے لگا۔لیکن اشرف ملت کی نظر اس سے آگے کام کررہی تھی،آ پ چاہتے تھے کہ بیک وقت یہی کام عالمی سطح پر بھی ہو،چناں چہ 2016 ء میں دہلی میں انٹر نیشنل صوفی کانفرنس کے موقع پر ”ورلڈصوفی فورم“کی بنیاد رکھی گئی،اس طرح ”ورلڈ صوفی فورم“آل انڈیا علما ومشائخ کے بطن سے پید اہونے والی عظیم عالمی تنظیم ہے،جو سنی صوفی مسلمانوں کو عالمی شناخت عطا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اسے مزید سمجھنے کے لیے آل انڈیاعلما ومشائخ بورڈ کادرج ذیل اعلامیہ پر نظر ڈالیں۔
(الف) دہشت گردی ایک عملی بیماری ہے جو انتہا پسندی کی فکری بیماری کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور انتہا پسندی کی ایک بڑی وجہ انسانوں کی حق تلفی ہے اسلامی کہتا ہے کہ پڑوسی کا حق تسلیم کرو پڑوسی کو مت ستاو پڑوسی سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو تو جب بھی انسان اس پر عمل کر لے جائیں تو حق تلفی کا راستہ بند ہو جائے گا پھر انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
(ب)حق تلفی قانون شکنی اور قتل و غارت گری کا جن کے پاس ریکارڈ ہے اپنی صفائی پیش کرے جنہوں نے دنیا کی دولت اقتصادی مراکز اور سرمایہ کاری کے اسباب پر قبضہ کر رکھا ہے اور آپس میں تقسیم کرکے انسانوں کی یومیہ امن و سکون کو اپنے مفادات کے مزار پر چڑھائی جانے والی کالی چادرحیلہ وسیلہ بنا کر رکھا ہے۔
(ج)دہشت گردی کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں یا اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا یہ باتیں امن کی سفیر نہیں کرتے اور صوفیاء جو امن عالم کے سفیر ہوتے ہیں ان کے ماننے والوں کی شان نہیں بلکہ عراق و افغانستان تباہ کرنے والے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے ہیروشیما ناگاساکی پر بمباری کرنے والے پہلی دوسری عالمی جنگ میں تباہی و بربادی کی تاریخ لکھنے والے حجاز مقدس میں قتل وغارت گری کرنے والے اور سری لنکا برما میں ہزاروں انسانوں کو نذرآتش اور دریا برد کرنے والے روشن خیالوں کی پہچان ہے۔
(د)دہشت گردی کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا کی تحریک چلانا دائرے الزام سے نکل کر اقبال جرم میں خود ہی داخل ہونے کا رویہ یہ ہے اور غیر ارادی طور پر دشمن کی سازش کو کامیاب بنانے کی روش ہے اور اسلام کے بدخواہوں کی منافقانہ حکمت عملی کے تحت تیار کیے گئے محاورہ کو محسوس صورت عطا کرنے کا طریقہ ہے ہاں دہشت گردی کی مخالفت اور دہشت گردوں کی غیر اسلامی ہونے پر اظہار خیال کرنے کا جو بھی طریقہ ہے ہمیں ضرور کرنا چاہیے۔
(ہ)اسلام خطرے میں ہے اور اسلام ہی ضد پہ کیوں؟ کا جدید محاورہ ہماری ایمان کی کمزوری اور اسلامی احکام پر ہمارے عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے اس لیے کی اسلام خدائی مذاہب اور قدرتی نظام ہے جو بندوں کی زد میں اور خطرے میں نہیں آنے والا۔
(و)امن عالم اور دنیا میں شانتی مذہب اسلام کی تعلیمات اور صوفیوں کے اخلاق و کردار کا حاصل ہے جو لوگ بھی ہم سے امن و سلامتی کو فروغ دینے کی امید رکھتے ہیں ان کی کامیاب اور خوشحال زندگی خود ہمارے بزرگوں کی کشادہ دلی انسان دوستی انسانی رواداری اور امن پرور تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
مذکورہ بالا اعلامیہ کو عالمی سطح پر نافذالعمل کرنے کے لیے 17تا20 مارچ 2016ء کودہلی میں عالمی سطح پرایک سیمینا راور ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ آزاد ہندوستان میں اہل سنت وجماعت کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور سب سے بڑ اeventتھا۔بنیادی اعتبار سے یہ دوحصوں میں منقسم تھا۔دوروزہ انٹر نیشنل صوفی سیمینار اورایک روزہ انٹر نیشنل صوفی کانفرنس۔پوری دنیا سے ماہرین ومحققین تصوف،صوفیہ اسکالر ز اور دانشوران میں اس پروگرام میں شریک ہوئے۔25ملکوں سے تقریبا دو سو 200مندوبین کی دعوت نظم ونسق،اور انتظام وانصرام،پروگرام کی ڈیزائننگ،آرگنائزنگ،اور تمام امور کی انجام دہی کتنی مشکل تھی،اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جنھیں اس قسم کے اجلاسوں کا تجربہ ہے۔،اگر سنی صوفی مسلمانوں میں اجتماعی شعور ہوتا تو اسے ایک ”موقع“میں تبدیل کرسکتے تھے،مگر منفی فکر نے یہاں بھی اپناکام کھل کرکیا،اور ایک موقع کو شومی قسمت میں بدل دیا۔
صوفی کانفرنس کے بعدسے لوگ یہ سوال کررہے تھے،کہ اتنی بڑی کانفرنس کاکیانتیجہ نکلا؟اہل فکر ونظر کے لیے تو بہت کچھ نتائج برآمد ہوئے،اور انھیں اس کااحساس بھی ہے، ملکی سطح پر سنی صوفی مسلمانوں کو اپنی مستقل پہچان ملی،اور عالمی سطح پر بھی انڈیا کاسنی صوفی مسلمان عالمی دہشت گردی کے تناظر میں ایک امن پسند اور محب وطن،انسانیت نواز طبقہ کے طور پر متعارف ہوا۔البتہ اس کمی کاہمیں بھی احساس ہے کہ کانفرنس کے بعد ملکی وعالمی رابطے اورکلچرل تبادلے کی جو رفتا رہونی چاہیے تھی وہ برقرار نہ رہ سکی،اور اس کی دو بنیادی وجہیں ہیں۔ایک توکانفرنس کے معا بعد کورونا کی عالمی وبا کا پھوٹنا،جس سے ملکی وعالمی اسفا رکا بھی سلسلہ رک گیا۔دوسرے کانفرنس کے بعد ملک کے کونے کونے سے اس قدر عوامی رجوع ہو اکہ ہر ایک ذرہ پکار اٹھا یہاں سے پہلے،اور تیسرے یہ کہ اگر مرکز اپنی مصروفیات میں الجھا رہا تو احباب کرم فرمانے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔خیر کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے بس یہ ایک صورت حال کااظہار ہے۔
فقیر اشرفی نے خود کئی بار حضور اشرف ملت سے عالمی دوروں کا تذکرہ کیا توحضرت نے فرمایا کہ عالمی حالات اس کے لیے ابھی موزوں نہیں ہیں،الحمد للہ اب دھیرے دھیرے برف پگھل رہی ہے،امکانات کے دروازے کھل رہے ہیں، ابھی چند دنوں قبل حضرت سری لنکا کے کامیاب د ورے سے واپس آئے،جس کی تفصیلا ت سے اخبارات کے ذریعے اطلاع دی گئی۔
اور اب امریکہ اور کناڈا کے دورے کی اطلاعات ہیں، حضرت نے کہا ہے کہ 14/جولائی سے 24/جولائی تک یہ دورہ جاری رہے گااس کے بعد 25 /جولائی سے کناڈا کا دورہ شروع ہوگا۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ورلڈ صوفی فورم کی توسیع وتعریف کاکام کیا جائے گا۔کناڈا میں فورم کی شاخ پہلے سے ہی موجود ہے، آل انڈیا علما و مشا۶خ بورڈ کے قومی سکریٹری شا ہ محمد حسن جامی صاحب اس کی نمائندگی کامیابی سے نبھا رہے ہیں۔اب جب کہ فورم کے صدر اور بانی خود وہاں پہنچ رہے ہیں تو امید قوی ہے کہ انشاء اللہ سالوں کا کام دنوں میں ہوگا۔عالمی سطح پر سنی مسلمانوں کی شناخت صوفی اور تصوف سے ہی ہے،یہ الفاظ اس بات کا اعلان واظہار ہوتے ہیں کہ اس فرد یاطبقے کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں،اسی لیے عالمی سطح پر دیگر تصوف مخالف قوتیں بھی تصوف کے دامن ہی میں پناہ لیتی ہیں،اور اپنا تعارف سنی صوفی تنظیم کے طور پر کرواتی ہیں،اس کے لیے بہت سی خانقاہوں جیسے نقش بندیہ قادریہ وغیرہ کانام بھی استعمال کرتی ہیں،اہل سنت وجماعت کے خلاف یہ ایک ایسافتنہ ہے جس کی سرکوبی جلد از جلد ہونی چاہیے،یہی وہ عظیم ملی کام ہے جس کا بیڑا ورلڈ صوفی فورم نے اٹھایاہے، اور جس کے لیے اب اشرف ملت سربکف وکمر بستہ ہوچکے ہیں،اور اشرفی جیلانی کاروان فکر وعمل رواں دواں ہو چکا ہے،احباب کرم فرماسے گزارش ہے کہ اپنی دعاؤں میں حضور اشرف ملت کو یاد رکھیں اور دعاکریں کہ سفر میں پیش آنے والی رکاوٹیں دور ہوں،اورکامیابی وکامرانی ہم رکاب ہو۔کیونکہ آپ کا سفر عام پیران عظام کاسفر نہیں ہے بلکہ یہ تنظیمی وتحریکی سفر ہے،جس کا ایک قومی وملی ایجنڈا ہے،ایک سنی صوفی سوچ ہے،ملت کی تعمیر وترقی کے لیے ایک نقشہ راہ ہے۔ ایں دعا ز من واز جملہ جہاں آمین آباد
مناسب معلوم ہوتا ہے کہاس موقع سے چند جملے حضرت اشرف ملت کی ذات وخدمات کے حوالے سے بھی نذرقارئین کردیے جائیں۔
حضرت مولاناسید محمد اشرف اشرفی جیلانی (5/جولائی 1966ء) بروز دوشنبہ کو کچھوچھہ شریف میں پیدا ہوئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔پھر جامعہ نعیمیہ مرادآباد جاکر چند سالوں تک زیر تعلیم رہے۔پھر وہاں سے منتقل ہوکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئے اوریہاں باقاعدہ سائنس سے گریجویشن کیا۔پھر لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں گریجویشن کیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے تجارت میں قدم رکھا،لیکن اس میدان میں آپ کاجی نہ لگا۔ آپ ہمیشہ سے علم دوست رہے اس لیے علمی اور روحانی کاموں سے آپ کوزیادہ دلچسپی رہی۔علما کی صحبت میں وقت گزارنے کازیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے۔آخر کار آپ نے تجارت کو خیر باد کہا اور اس عظیم الشان کام کا بیڑہ اٹھایا جس کے لیے قدرت نے آپ کو پیدا کیاتھا جوا ب تک آپ کی زندگی پر چھایہ ہواہے۔
1999ء میں اپنے والدین کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہوا اور جب دوسری مرتبہ آپ اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ حج کے لیے گئے تو والد گرامی حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کو بیت اللہ شریف میں امامت کی اجازت دی اور خود شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے اشرف ملت کی اقتدا میں نماز اداکی جو آپ کی عزت ومنزلت کی روشن گواہی ہے۔اس کے بعد آپ خدمت دین کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور علمی اخلاقی،تبلیغی و اشاعتی شعبوں میں سرگرم ہوگئے جس کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔
والد گرامی شیخ اعظم سید اظہار اشرف الاشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ نے مختار اشرف لائبریری میں بحیثیت ڈائر یکٹر نامزد فرمایا۔ماہنامہ غوث العالم میں بحیثیت چیف ایڈیٹر جو کئی بار جاری اور بند ہوا اس کی زمانہ دراز تک ادارت ذمہ د اری ادا فرمائی۔غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کاقیام بھی آپ کے عالی دماغ کانتیجہ ہے۔اشرف ملت کے اس کام سے وہ اس قدر خوش ہوئے تھے کہ آپ نے فوراً ہی غوث العالم میموریل ایجوکیشنل سوسائٹی کے تعلق سے اپنا ایک حمایت نامہ جاری کردیاتھا۔جو ماہنامہ غوث العالم کے مارچ 2004ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ ملک گیر دعوتی وتبلیغی دوری اور عوامی بیداری کے لیے اجتماعات کاانعقاد۔خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم سرکار کلاں کے سالانہ پروگراموں کا اہتمام اوانصرام۔الاشرف ٹرسٹ کی جانب سے طبع ہونے والی کتابوں کی سرپرستی ونگرانی۔سالانہ عرس مخدومی اورسالانہ عرس اعلیٰ حضرت اشرفی کے انتظامات۔بیعت وارادت کی سرگرمیاں،اور دردمندوں کی مسیحائی۔ملکی سطح بلاناغہ وعظ وخطابت کابابرکت سلسلہ۔مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں رہ نمائی اور مناسب بیانات کااجرا۔مسجد عالم ربانی سید احمد اشرف کی تعمیر وتوسیع۔خانقاہ اشرفیہ شیخ اعظم کی تعمیر وتوسیع۔یہ وہ چند کام ہیں جن میں کوئی ایک کام بھی بڑے بڑے اہل دماغ کو ہلاکر دکھ دے گا۔
جس طرح اشرف ملت اپنی تحریک کی وجہ سے عروج واقبال کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اسی طرح آپ اپنی شخصیت اورعادات واطوارکی بنیاد پر بھی ہردل عزیز نظرآتے ہیں لوگوں کی مزاج پرسی،تبسم آمیز ملاقاتیں دلجوئی وغمگساری یہ سب آپ کے نمایاں اوصاف ہیں طبیعت میں انکسارپایاجاتاہے فکرمیں گہرائی تجربے میں پختگی اور گفتگو وشنید میں تحمل وتدبر کاعنصر شامل رہتاہے۔آپ سے باتیں کرنے والا نہ اکتاہٹ محسوس کرتاہے اور نہ کبیدگی۔ابھی سے مشخیت کے آثارپیدا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے گردو پیش عقیدتمندوں کاہجوم لگارہتاہے۔ اللہ تعالیٰ اشرف ملت کاسایہ ہم پر تادیر قائم رکھے تاکہ ان کی چھیڑی ہوئی تحریک ایک وسیع اور ہمہ گیر تحریک کی شکل میں ابھر کرسامنے آئے۔
خاکسار
مقبول احمد سالک مصباحی

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0