ملک میں مسلمانوں کی قابل رحم حالت کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے اب یہ تحقیق کا موضوع نہیں ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسی بات کر رہا ہوں مگر یہی سچ ہ
ملک میں مسلمانوں کی قابل رحم حالت کو کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے اب یہ تحقیق کا موضوع نہیں ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسی بات کر رہا ہوں مگر یہی سچ ہے، لیکن ہم کبھی بھی جب مسلمانوں کے بارے میں کچھ کرنے کی سوچتے ہیں تو ایک جماوڑا لگا کر اسی بات پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے پچھڑے پن کی وجہ کیا ہے۔اس سوچ میں ہم دوباتوں پر غور کرتے ہیں، پہلی ہماری غربت اور اس کی اصل وجہ تعلیم اور پھر یہیں بات ختم ہوتی ہے کہ معاشرے کو تعلیم دیئے بغیر ہماراکوئی علاج ممکن نہیں ہے اور اس کے لئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پھر بات اگلی ملاقات پر ٹال کر ختم ہوجاتی ہے جو معاشرے کا اصل چہرہ ہے۔
لیکن حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے، آج مسلمانوں میں تعلیم کو لے کر شعور دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہے اور سب اپنے بچوں کو تعلیم دینا چاہ رہے ہیں، جس کے پاس بھی جو وسائل ہیں وہ اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کر اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہیں پر ان کے ساتھ دھوکہ بھی ان کے ہی لوگوں کے ذریعہ دیا جا رہا ہے اورجو تعلیمی نظام ان کے پاسبہت بہتر ہوسکتا تھاوہ ان غدار لوگوں کی وجہ سے نہیں ہو سکا، ابھی اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ مدعا ابھی یہ نہیں ہے بلکہ ہمارے پچھڑے پن کی صحیح وجہ پر بات کرنی ہے۔
دراصل، مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ ان کی سیاسی نمائندگی کا نہ ہونا ہے،جی ہاں یہی ایک واحد وجہ اس قوم کی بدتر حالات کی ہے،آپ لوگ کہیں گے کہ ہماری نمائندگی تو ہمیشہ رہی ہے، ہرحکومت میں ہمارے لوگ رہے ہیں،منتری بنے ہیں،لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی آپ کامنتری ہونے کا احساس بھی کرایا ہے؟ کسی پارٹی میں بہت زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود بھی کیا وہ پالیسی معاملات میں آپ کے حق میں کھڑے ہو پائے ہیں؟ آپ کا جواب یا تونہ ہو گا یا آپ ادھر ادھر بگلیں جھانکیں گے،کیونکہ جسے بھی ہم نے لیڈر بنایا اس نے ہمیں صرف اپنا ووٹر سمجھا اور اس نے اپنی پارٹی سے آپ کی حصہ داری نہیں مانگی بس آپ کا ووٹ اس کے پاس گروی رکھ کر اپنے لئے عہدہ لیا۔
اس کی بہت ساری مثالیں ہیں،حالانکہ اس کام میں اس نیتا سے زیادہ ہماری غلطی ہے کیونکہ ہم نے اسے نیتا کسی شرط کے ساتھ نہیں بنایا بلکہ یا تو جذبات میں آکر ووٹ دیا یا دھوکے میں تو اس نے جو کیا وہ بھی صحیح ہوا،لیکن ان 7 دہائیوں میں ہم اس بات پر دھیان ہی نہیں دے سکے کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے اور سیاسی تاجر ہر بار نیا کارڈ کھیل کر ہمیں بے وقوف بناتے رہے، کبھی ہمیں مندر مسجد کے نام پر ٹھگا گیا تو کبھی قبرستان کے نام پراور نہ ہم جان سکے کہ ہمارا حق کیا ہے اور نہ انہوں نے ہمیں ہمارا حق دینے کی کوشش کی۔
لیکن اب جب بیماری کا صحیح پتہ چل چکا ہے تو ہم اس کا علاج کیوں نہیں کرتے یہ ایک بڑا سوال ہے، اس سوال کے ساتھ ایک اور سوال بھی ہے کہ آخر دوا ہے کیا؟ کیا ہم اپنی سیاسی پارٹی بنا کر میدان میں آئیں تو میرا جواب ہوگا نہیں،کیونکہ یہ ایک خودکشی کا قدم کے سوا کچھ نہیں ہوگا، آپ میں سے بہت سے لوگ میری اس بات سے شاید انکار کریں گے لیکن میرے پاس اس کے لئے ترک ہے کہ جمہوریت میں جیت اور شکست اعداد و شمار پر ہوتی ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آپ کی کل آبادی 18 سے 20 فیصد ہے، ایسے میں اکثریتی جماعت سے آپ سیدھے انتخابات میں ایک مذہبی پارٹی بنا کر نہیں جیت سکتے بلکہ آپ جماعت کو سیدھے طور پر تقسیم کر دیں گے، جس کا نقصان یہ ہوگا کہ ابھی جو علامتی نمائندگی مل بھی رہی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی، جس کی پہچان خود کو سیکولر کہنے والی تمام پارٹیوں کی سافٹ ہندوتوا پالیسی ہے، جس میں آپ کی قیادت اس پارٹی میں اہم پروگراموں کی ہارڈنگ سے بھی غائب ہو رہی ہے۔
یعنی، اپنی پارٹی تشکیل دے کر انتخابی سیاست میں اترنا سیدھے طور پر سماج کو بانٹنے سے ٹھیک پہلے والی حالت میں لا کر کھڑا کرنے والا قدم ہوگا جو بہت ہی خوفناک ہے، اب ہمارے پاس کون سا آپشن باقی ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کہ ہم اپنی حصہ داری حاصل کر سکیں تو اس کے لئے ہمارے پاس واحد ایک راستہ ہے، وہ یہ کہ پہلے ہمیں آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اوراپنے یہاں ہر سطح پر قیادت تیار کرنی ہوگی،محلے سے ریاست اور ملک ہر جگہ اور آپس میں ہم آہنگی قائم کرنی ہوگی۔
کسی بھی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونے کے لئے ہمارے پاس صرف ایک پیمانہ ہونا چاہئے، کیا وہ ہمیں ہمارے اعداد کے مطابق ہمیں حصہ دینے کو تیار ہے اگر وہ عملی طور پر ایسا کرتا ہے تو معاشرے کو اس پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوجانا چاہئے کیونکہ ابھی تک جو دیکھا گیا ہے کہ جنقوموں کی تعداد صرف 5 فیصد بھی پوری نہیں ہے انہوں نے اپنی قوم کو متحرک کراپنے حقوق حاصل کیے ہیں، ایسے میں مسلمان ملک میں تقریبا 18 فیصد ہیں تو وہ ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ یہاں ہمیں ایک بات اور دھیان میں رکھنی ہوگی کہ ہمارے لئے کوئی بھی جماعت اچھوت نہیں ہے، جو بھی ہمیں حصہ دے گاہم اس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں، ہم کسی پارٹی کو حکومت میں آنے سے روکنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتار پھینکیں اور پھر فیصلہ کریں کہ ہمارا فائدہ کہاں ہیں، ایسا کرنے سے ہمیں ایک طرف تو کوئی بے وقوف نہیں بنا پائے گا وہیں ہماری حصہ داری کی لڑائی ہم جیت جائیں گے۔
مسلمانوں کو ایک بات اورسمجھنی ہوگی کہ ہم اپنے یہاں پنپتی لیڈرشپ کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے اور اس پر ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگائیں گے کیوں کہ اسسے ہمیشہ فائدہ ہمارے مخالفین کو ہی ہوتا آیا ہے، اس طرح ہم اپنے یہاں قیادت کے امکانات کو ختم کرتے ہیں اور دوسرے کے مشن کو کامیاب کرتے ہیں۔ اس سے پہلے لگاتار مسلم مذہبی رہنماؤں پر اٹیچی پالیٹکس کا الزام لگا ہے کہا انہوں نے مسلمانوں کا سودا کر لیا ہے اور کئی بار یہ الزامات صحیح بھی ثابت ہوئے ہیں،ایسے میں مذہبی رہنماؤں کو اگر سیاسی بات کرنی ہوتو انہیں فعال سیاست میں اترنے کے لئے کہنا ہوگا کہ آپ آئیے ہم آپ کے ساتھ ہیں، نہیں تو آپ صرف مذہبی معاملات میں بیان بازی کریں،کسی بھی سیاسی بیان کو ان کا ذاتی بیان ہی مانا جائے گا اس سے پورے سماج کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
لیکن اگر کوئی مذہبی رہنما ہمت کر کے سیدھے فعال سیاست میں آتا ہے تو اس کا پوری قوم کو استقبال کرنا چاہئے اور اس کے ساتھفعال ہونا چاہئے، اس سے جہاں اسے طاقت ملے گی وہیں باقی لوگوں کو بڑی ہمت اور اس طرح ہم اپنے اندر قیادت کی کمی کو ختم کر پائیں گے،لیکن اس پورے کام میں ہمیں مذہبی رہنماؤں اور معاشرے کے دانشور طبقے کی رہنمائی کی ضرورت ہوگی کہ یہ دونوں طبقے ساتھ مل کر کام کریں اور عام لوگوں تک صحیح پیغام پہنچائیں۔ علماء، مشائخ اور دانشورطبقہ مل کر اس کام کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں، جس کے لئے انہیں آپس میں متحد ہونا پڑے گا۔
معاشرے کا واحد مسئلہ سیاسیحصہ داری ہے جو حقیقی ہو نہ کہ صرف کہنے بھر کی، جس کا مطلب ہے پالیسی سازفیصلوں میں حصہ، کوئی دو چار وزارتیں نہیں، اس کے لئے ہمیں کوششیں جاری رکھنی ہوں گی، کسی بھی طرح کے جذبات سے بچنا ہوگا۔ بے بنیاد الزام لگانے کی اپنی پرانی بیماری کو ختم کرنا ہوگا،ایسا کر ہم نہ صرف اپنی مدد کریں گے بلکہ ملک کی بھی بھرپور مدد کریں گے،کیونکہ ملک کا ایک بڑا طبقہ اپنی مشکلات سے ابھر جائے گا تو ملک کی ترقی میں حصہ ملے گا اورغربت و ناخواندگی کے بادل دورہوں گے۔
ابھی تک صرف اس طرح کے اعلانات سننے میں آتے رہے ہیں کہ اس بار اس پارٹی کے ساتھ مسلمان کھڑے ہیں لیکن 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت لکھنؤ میں ایک سماجک نیائے نامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کا اہتمام آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک بھرکی بڑی خانقاہوں کے سجادگان اور علماء نے شرکت کی، اس کانفرنس میں پہلی بار ایک قرار داد منظور کی گئی تھی کہ مسلمان اس پارٹی کے ساتھ جائیں گے جو انہیں ان کی تعداد کے مطابقحصہ داری دے گا، حالانکہ اس وقت تو لوگوں کو اس کی اہمیت سمجھ میں نہیں آئی لیکن آہستہ آہستہ یہ بات پورے ملک میں موجود مسلم سماج تک پہنچ گئی اور اب لوگ اس پر بات کر رہے ہیں لیکن ابھی ان کے پاس قیادت کی کمی ہے۔
پچھلے روز ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت سے اس سمت ایک خوشگوار خبر آئی کہ ایک بڑیمذہبی رہنما اور آل انڈیا علما مشائخ بورڈ کے بانی و صدر، ورلڈ صوفی فورم کے چیئرمین حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی نے حصہ داری کے نعرے کے ساتھ فعال سیاست میں اپنا آغاز کیاہے۔ انہوں نے ہی 2019 میں حصہ داری کی بات شروع کی تھی لیکن تب وہ فعال سیاست میں نہیں تھے،انہوں نے سماج وادی پارٹی سے الگ ہو کر شیوپال سنگھ یادو کی بنائی ہوئی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی میں اقلیتی سیل کے قومی صدر کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پارٹی کا بڑے پیمانے پر بیس کیا ہے؟ اس کے ساتھ یہ سوال بھی ہے کہ اس سے توحکمراں جماعت بی جے پی کو مدد ملے گی۔ توپھر جواب وہی ہے،جی ہاں ابھی یہ نئی جماعت ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ریاست کے 22فیصد مسلمان متحد ہوجائیں تو یہ پارٹی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر پیش ہوگی۔یعنی پردیش میں کسی بھی پارٹی کو بڑا کرنے کی طاقت ہمارے سماج میں ہے تو یہ سوال یہیں ختم ہو جاتا ہے اور ذمہ داری ہم آپ پر بڑھ جاتی ہے کہ جب کسی نے ہمت کی ہے تو اس کے ہاتھوں کو مضبوط کریں۔
اب رہا بی جے پی کو فائدے کا سوال،تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ہمیں جہاں حصہ ملے گا ہم اس کے ساتھ ہیں،اگر پرگتی شیل سماج وادی پارٹی حصہ داری دینے پر تیار ہے تو ہمیں اس کے ساتھ آنا ہوگا،اب جسے ہمارا ووٹ چاہئے وہ اپنے پتّے کھولے کیونکہ لگاتار شیوپال یادو سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کی بات کر رہے ہیں، اگر کوئی اس کے لئے راضی نہیں ہوتا تو پیغام صاف ہے وہ خود بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں، ہمارے پاس حصہ داری پانے کا موقع ہے اور اپنی 70سالہ پرانی بیماری کے علاج کی دوا ہے، اب فیصلہ ہمیں لینا ہے کہ ہم حصہ داربنیں گے یا پھر جمّن دری بچھائے گا۔
یونس موہانی
COMMENTS