HomeUncategorized

علماء مشائخ بورڈ کے چینل پر حضرت ابو بکر صدیق کی یاد میں محفل کا انعقاد۔

گزشتہ روز 22 جمادی الاخریٰ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم و صال کی مناسبت سے آل انڈیا علما، مشائخ بورڈ کی جانب سے آن لائن پروگرام کیا گیا،

گزشتہ روز 22 جمادی الاخریٰ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے یوم و صال کی مناسبت سے آل انڈیا علما، مشائخ بورڈ کی جانب سے آن لائن پروگرام کیا گیا، جس میں مولانا مختار اشرف نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا جب کہ پورنیہ بہار سے مولانا منظر محسن نے سیدنا ابوبکر صدیق کی پاکیزہ حیات اور بے مثال خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
پروگرام کے ہوسٹ مختار اشرف نے کہا کہ :
سیدنا صدیق اکبر کی پیدائش رسول اللہ ﷺ کی پیدائش سے دو سال چند ماہ بعد ہوئی تھی، آپ کا پیدائشی نام عبدالکعبہ تھا۔ اسلام قبول کرنے پر پیغمبر اسلام ﷺ نے آپ کا نام عبدالله رکھ دیا۔ حضرت صدیق اکبر نے مردوں میں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا شرف پایا۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تھا اس وقت آپ کے پاس چالیس ہزار درہم یا دینار تھے، ہجرت سے قبل ہی 35 ہزار اسلام کی اشاعت کے لیے خرچ کر دیا تھا، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد بھی آپ کا ہاتھ کھلا رہا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کے موقع پر اپنا سب کچھ، اللہ و رسول کی رضا کی خاطر اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جب دنیا سے رخصت ہوے تو وراثت میں کوئی درہم و دینار نہیں بچا تھا یہ تھا آپ کا جذبہ انفاق فی سبیل اللہ۔ مفتی منظر محسن صاحب نے کہا کہ
پیغمبر اسلام ﷺ نے سب سے پہلا امیر حج بھی انہیں ہی مقرر فرمایا، امام الانبیا کی موجودگی میں مسجد نبوی میں امت کی امامت کا شرف بھی آپ ہی کو عطا ہوا، #دو_مرتبہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی اقتدا میں نماز بھی ادا فرمائی۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کی چار پشتوں کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کو یہ فضیلت حاصل ہو۔
سیدنا ابو بکر صدیق شروع ہی سے سلیم الفطرت تھے، شراب نوشی اور بت پرستی سے عمر بھر محفوظ رہے۔ جس کی تصدیق رسول اللہ ﷺ اور جناب جبریل فرشتے نے کی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد آپ مسندِ خلافت کے لئے چنے گئے، مملکت اسلامیہ کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں پڑی کیوں کہ آپ نے نہ صرف لوگوں کے دلوں میں عقائد کو راسخ کیا بلکہ تبلیغی و جنگی وفود ملک کے مختلف حصوں میں بھی بھیجے۔ عقائد کے رسوخ و نفوذ کے لیے آپ نے جو نمایاں کارنامہ انجام دیا وہ فتنہ ارتداد کو کچلنے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ حکومت کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جو کارنامہ آپ نے انجام دیا وہ یہ ہے کہ سرحدوں پر فوجیں بھیج کر دشمنوں پر اپنی حکومت کے داخلی استحکام کا رعب جمادیا۔ ان دونوں کارناموں میں آپ کو دوسرے خلفاء پر اولیت اور فوقیت حاصل ہے۔
خلافت کی بیعت لینے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے جو خطبہ پڑھا وہ اسلام کی اصل حقیقت کی تصویر کھینچ رہا ہے اور اس راز کو ظاہر کرتا ہے جس کے سبب سے اسلام نے اتنی تیزی کے ساتھ پوری روئے زمین پر اپنا سایہ پھیلا دیا ،وہ خطبہ یہ ہے:
’’ اے لوگو ! میں تمہارا امیر مقرر کیا گیا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اس قابل نہیں تھا،میں تم سے بہتر نہیں ۔ اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا،میں پھر جاؤں تو سیدھا کرنا، سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے، تم میں سے جو کم زور ہے وہی میرے نزدیک طاقت ور ہے، یہاں تک کہ میں اُس کو اُس کا حق لے کر دوں، تم میں جو طاقت ور ہے وہی میرے نزدیک کم زور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں، تم میں سے کسی کو جہاد ترک نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ جب بھی کوئی قوم جہاد کو چھوڑ دے گی اللہ تعالیٰ اس قوم کو ذلت میں مبتلا کردے گا ۔ جب تک میں اللہ اور اللہ کے رسول كى فرماں برداری کروں تو میری فرماں برداری کرنا ،اگر مجھ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب ہو تو تم سے فرماں برداری کروانے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ ‘‘
حضرت سیدنا صدیق اکبر کا یہ خطبہ ان کی متوازن شخصیت اور کردار کا آئینہ دار ہے اور دنیا بھر کے اُمرا و سلاطین، بالخصوص مسلم حکمراں و قائدین کے لیے اس خطبہ میں بڑا سبق ہے۔
بورڈ کے ترجمان مختار اشرف صاحب نے کہا کہ علماء مشائخ بورڈ کی جانب سے اشرف ملت کے زیر سایہ اصحاب و اہلبیت رسول کے مشن کو فروغ کا سلسلہ لگاتا ر جاری ہے۔

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0