HomeActivitiesZonal Activities

देवबंद के उलमा की घर वापसी : जमीअत उलमा ए हिन्द के अजमेर शरीफ प्रोग्राम के सन्दर्भ में मौलाना मोहम्मद तय्यब अलीमी

4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity   علماء دیوبند کی گھر واپسی جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس منعقدہ اجمیر شریف کے تناظر میں مولانا محمد طی

4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

 
علماء دیوبند کی گھر واپسی
جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس منعقدہ اجمیر شریف کے تناظر میں
مولانا محمد طیب علیمی
دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یو پی 
مسؤل الادارہ ماہنامہ المشاہد لکھنؤ
اس میں شبہ نہیں کہ تمام کلمہ گو فرقوں میں اہل سنت و جماعت سے وابستہ لوگ ہی اسلام کی اصل تعلیمات و عقائد اور معمولات پر ہمیشہ سے قائم رہے ہیں .رہی بات علماء دیوبند کی تو اگرچہ ان کے اکابر اور اساطین کا علمی و روحانی سلسلہ اہل سنت اور مشائخ چشت کے اجلہ صوفیاء کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ یہ لوگ ایسے تبدیل ہوئے کہ خود اپنے شیخ طریقت اور پیشوا عالم ربانی حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب اور راستے سے منحرف ہوگئے ، یہاں تک کہ حضرت شیخ کو خود اپنے ان مریدین اور خلفا کے خلاف محاذ کھولنا پڑا۔
چنانچہ حضرت حاجی صاحب قبلہ رحمۃاللہ علیہ کی معرکہ آرا تصنیف “فیصلہ ہفت مسئلہ”اس کی بین دلیل ہے.
اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ ان حضرات نے حاجی صاحب کے بر خلاف اپنے نظریات و افکار کا قبلہ شاہ محمد اسماعیل دہلوی کی کتاب ” تقویت الایمان ” کو بنالیا. جبکہ یہی وہ کتاب ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ،اور اس کے باوجود خواص میں تو نہ کے برابر البتہ عوام میں علماء دیوبند نے اس کتاب کے نظریات کو عام سے عام تر کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔
حالانکہ اس کتاب میں شرک کی ایسی بھٹی بنائی گئی تھی جس میں اہل سنت کے بہت سارے قدیم متواتر و متوارث معمولات و مراسم وغیرہ کو یک لخت جھونک دیا گیا، بطور خاص اولیاء و صالحین سے اکتساب فیض، ان سے وابستگی اور توسل، نذر و نیاز۔
اور اسی پر بس نہیں بلکہ علماء دیوبند نے اپنے طور پر بھی بہت کچھ گل کھلایا۔ چنانچہ ایسے ایسے تفردات و عجائب لیکر آئے جنہیں ہمارے باپ دادا نے بھی نہیں سنا تھا .تحذیر الناس حفظ الایمان براہین قاطعہ اور اس طرح کی دیگر کتب علماء دیوبند بہت ساری گستاخانہ اور تصوف شکن عبارتوں سے بھری پڑی ہیں ، جن پر بحث و مباحثہ مناظرہ اور رد و ابطال اور ان کی تاویل و توضیح کرنے کرانے میں تقریبا ڈیڑھ صدی کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
ہاں یہ اور بات ہے کہ زیادہ دقیق اور اہم علمی و اعتقادی مسائل بطور خاص اہل علم کے درمیان دائر رہے۔ مگر نیاز ،فاتحہ ،عرس ،چادر اور اولیاء اللہ سے وابستگی کے معاملات عوام کے درمیان خوب پھیلائے گئے. نتیجتاً آج برصغیر میں حال یہ ہوگیا ہے کہ یہی نذر و نیاز جیسے رسوم ہی دیوبندی اور غیر دیوبندی کے درمیان نشانِ امتیاز سمجھے جاتے ہیں۔
اس دعوے کی تائید خود اس بات سے ہوتی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں رہنے بسنے والے دیوبندی مکتب فکر کے لوگ محبین اولیاء اللہ کو “قبر پرست” جیسے قبیح لقب سے پکارا کرتے ہیں۔
ہر کسی کو اس کا اعتراف ہے کہ آج بالخصوص ہندوستان میں مسلمانوں کی قوت کمزور ہونے کا کلیدی سبب یہی سنی و دیوبندی تنازعہ ہے، جس کا خاتمہ نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو اتحاد ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی طاقت بحال ہوسکتی ہے ۔
لیکن حیرت ہے کہ اتحاد کی بات ایسے ماحول میں کی جارہی ہے جب کہ عالمی سطح پر وہابیت کو چاروں خانے بالکل چت کیا جارہا ہے اور اس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔
ایسے وقت میں جمعیۃ علماء ہند کے لوگ تصوف کا لبادہ اوڑھ کر یکایک نمودار ہو رہے ہیں اور سر زمین ہند میں موجود “صوفی ازم “کے مرکز اجمیر شریف سے اپنے تعلقات قائم کرنے اور سرکار غریب رضی اللہ عنہ کی دہائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
بہر حال اگر جمعیۃ کے اندر اخلاص کارفرما ہے اور کوئی سیاسی غرض مخفی نہیں تو یقیناًقدیم مذہب کی طرف رجوع لانا اہم اور قابل قدر اقدام ہے اور دیر آید درست آید کا مصداق ہے ۔
اس حوالے سے میڈیا میں جن باتوں کا اشتہار کیا جارہا ہے اور حضرت خواجہ غریب نواز کی نگری میں جمعیۃ علماء ہند کی حالیہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اتحاد عام کی ایک امکانی صورت نظر آرہی ہے، جس کو عالم وجود میں لانا وقت کا بڑا تقاضہ ہے ۔
لیکن ان تمام امور کے پس منظر و پیش منظر پر عوامی ذہنوں میں درج ذیل تنقیح طلب سوالات اور مطالبات کھٹک رہے ہیں جن کا تشفی بخش جواب از حد ضروری ہے۔ کیونکہ وہی جوابات اتحاد کی شاہراہ متعین کریں گے۔
(1) جمعیۃ کے لوگوں کو سرکار غریب نواز اب تک کیوں نہیں یاد آئے تھے؟
(2) کیا آپ حضرات سلسلہ چشتیہ اور دیگر سلاسل سے رشتہ جتاکر”تقویت الایمان” سے اپنی برأت کا اظہارکررہے ہیں؟ حالانکہ اس کتاب کا رکھنا آپکے مذہب میں” عین ایمان” ہے۔
(3) کیا عقیدہ ختم نبوت کا دم بھر کر “تحذیر الناس” مؤلفہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کو منسوخ کر رہے ہیں؟ جس کے مطابق حضور کے بعد بھی دوسرا نبی آسکتا ہے۔
(4) کیا آپ حضرات اپنے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے بالقصد سفر اجمیر کرنے اوردیر تک فاتحہ پڑھنے نیز مولانا یعقوب کے کسب فیض اور کشف ومراقبہ کرنے کا حوالہ دیکر سنیوں کے اوپر اپنے تھوپے ہوئے الزام ” قبر پرستی “کو اٹھانے کا اعلان کررہے ہیں ؟
(5) کیا آپ حضرات اتحاد امت کی خاطر اپنے اکابر کی منفرد اور خلاف جمہور آراء و نظریات کو ترک کرکے اہل سنت کے قدیم منہج پر آنے کا عہد کرتے ہیں؟
اگر ان سارے سوالات کی تنقیحات پر مشتمل ایک اعلامیہ جمعیۃ جاری کردیتی ہے تو بلا شبہ پورا برصغیر بیک آواز نعرہ اتحاد سے گونج اٹھے گا۔
لہذا جمعیۃ کے ذمہ دارن حضرات سے مخلصانہ اپیل ہے کہ اتحاد کی جو تحریک چلائی گئی ہے اس کو کامیاب کرنے کے لئے کانفرنس وغیرہ کرنے کے بجائے اپنا واضح اعلامیہ جملہ مسلمانان ہند کے نام جاری کروادیں ان شاء اللہ خاطر خواہ نتیجہ سامنے آجائے گا۔
کیونکہ اہل دیوبند اپنے بزرگوں کے جن غلط نظریات پر عرصۂ دراز سے قائم ہیں ان سے صحیح معنوں میں علیحدگی کے بغیر اتحاد نہیں ہو سکتا اور اگر علیحدگی کا اعلان ہوجاتا ہے تو پھر کسی بھی زحمت اور مغزماری کی ضرورت نہ پڑے گی ۔

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0