کی بڑھتی بدعنوانیاں DDA وقف بورڈ اور عبدالمعید ازہری آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ یوتھ جنرل سکریٹری ہندوستان سمیت پوری دنیا جہاں کہیں بھی اسلامی حکوم
کی بڑھتی بدعنوانیاں DDA وقف بورڈ اور
عبدالمعید ازہری
آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ یوتھ جنرل سکریٹری
ہندوستان سمیت پوری دنیا جہاں کہیں بھی اسلامی حکومتیں ہیں یا مسلم قوم قدیم زمانے سے آباد ہیں، تقریبا ہر جگہ وقف جائداد کا تصور اور اس کے تئیں نظم و نسق کا نظام موجود ہے۔ اس زمرے میں ہندوستان وقف جائداد کے معاملے میں کئی مسلم ممالک کی اراضی اوقاف سے آگے ہے۔ وقف جائداد کی نگہداشت کے لئے الگ الگ ممالک میں الگ الگ نظام قائم ہیں۔ کہیں سیدھے حکومت کی زیر نگرانی میں ہے تو کہیں مسلم اوقاف کے زیر نظم ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ان اوقاف کی جائدادوں کے لئے ایک بورڈ موجود ہے۔ جسے ہم وقف بورڈ کہتے ہیں۔ جس طرح سے حکومت کے دیگر ادارے ملک اور ملک کے باشندوں کی علمی،سیاسی ، سماجی اور اخلاقی تربیت و ترقی کے لئے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس ملک کا ہر باشندہ ذی شعور اور قابل و لائق اور فائق نکل کر ملک اور قوم کو ترقی سے ہم کنار کرے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ اسی طرح سے وقف بورڈ کا قیام بھی اسی مقصد سے کیا گیا تھا۔ اس کی جائداد کا صحیح استعمال کر کے اقلیتی طبقے کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی و سماجی زبوں حالی اور زوال پذیری پر قدغن لگایا جائے۔ اس کے صحیح استعمال سے نچلے طبقے کو بھی ترقی دے کر ملک کی تعمیر و ترقی کا برابر حصے دار بنایا جائے۔ تاکہ ملک کو ایک ساتھ مل کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اول مقام دلا کر اس کے تئیں اپنی جان مال قربان کرنے والوں کو خراج پیش کیا جائے۔
وقف جائداد وہ جائداد ہیں جنہیں کار خیر اور ایصال ثواب کی نیت سے قوم کی خدمت کے لئے وقف کی گئی ہیں۔ صاحب حیثیت، زمیں دار اور اہل ثروت نے اپنے متعلقین اور لواحقین کے لئے ان کے ایصال ثوب کے لئے یا کار خیر کی نیب سے انہیں وقف کر دیا کہ اب اس جائداد کا استعمال امت کی بھلائی اور اس کی تعمیر و ترقی میں استعمال ہو۔ بنیادی طور پر وقف جائداد کا تصور یہیں سے وجود میں آیا۔ مذہب اسلام میں مرنے والے سے اس کی موت کے بعد بھی تعلق کا ایک اہی راستہ ہے۔ صدقہ جاریہ اور اس کے لئے ایصال ثواب کرنا۔ان جائداد، مال و دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کر کے اس کے صلہ میں مرحوم کے لئے دعائیں کرنا، ان کی مغفرت چاہنا۔یہ سلسلہ قدیم زمانے سے مسلمانوں میں رائج اور قائم و دائم ہے۔ اپنی اپنی حیثیت،نیت اور عقیدت و اردات کی بنیاد پر یہ کار خیر رواں دواں ہے۔جس کے نتیجے میں آج ملک بھر کی وقف جائداد کا اندازہ لگایا جائے تو اقلیت کے ساتھ ملک کے حالات بدلنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے ایک اندازے کے مطابق محض دس برسوں میں قوم مسلم کے حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ان جائداد کے پیچھے ایک اور دلچسپ حقیقت اور سبق آموزنمائندہ اوراق پنہاں ہیں۔ جنہیں کم ہی کھولا جاتاہے۔ عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اوقاف کی جائداد ایسی جگہ ہیں جہاں کسی بزرگ کی کوئی قبر، مزار، درگاہ اور اسی سے وابستہ ایک مسجد ہے۔ وقت و حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی بھی انہدام و تنزلی بھی ہوتی رہی۔ کچھ جگہیں تو کافی نمایاں اور ترقی یافتہ ہو گئیں اور کچھ اتنی تاریکی میں چلی گئیں کہ آج و ہ موشیوں،غلیظ خانوں کی استعمال گاہ بن گئیں۔
بہر حال اس کے پیچھے کی دلچسپ تاریخ یہ ہے کہ ہندوستان جب اسلام آیا تو تصوف کے کردا ر میں آیا تھا۔ ایک درویش اپنی انسانی ہمدردی اور قومی ہم آہنگی کی تعلیم سے لوگوں کے لئے ہدایات کے راستے ہموار کرتا تھا۔ کسی جگہ بیٹھ کر وہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتا تھا۔ لوگ ان کے اس عمل اور کردا ر سے متاثر ہو کر اس بزرگ کے مذہب کو قبول کر لیتے تھے۔ اس انسانی ہمدردی اور رواداری کے چلتے ان کے پاس لوگوں کا جم غفیر ہونے لگتا تھا۔ لوگ دور دراز سے سفر کر کے ان بزرگوں کے پاس کچھ دن گزارنے اور انسانی رواداری کی تعلیم سیکھنے آتے تھے۔ مہینوں کا قیام رہتا تھا۔اب مہینوں تک رکنے کے لئے ان کی خاطر قیام و طعام کا انتظام بھی ضروری تھا۔ تو اس کے لئے اہل ثروت نے سخاوت دکھائی اور اس وقت کے حاکموں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس بزرگ کے مسکن کے قریب کی زمینوں کو اسی کار خیر کے لئے وقف کر دیا۔ اب اس میں کھیتی بھی ہوتی تھی۔ اور اسی کے غلے سے بھوکوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا تھا۔اس طرح غریبوں اور مسکینوں کو ایک ایسا مرکز مل گیا جہاں سب کو کھانا ملتا تھا۔جہاں لوگوں کے ساتھ ہمدردی ان کے مذہب یا ذات کی بنیادپر نہیں بلکہ ان کی ضرورت کی بنیاد پر ان کے ساتھ معاملات کئے جاتے تھے۔
دہلی سمیت ملک کے الگ الگ حصوں میں خصوصا شہروں میں ان کی ترقی کے لئے قائم کردہ ایک ادارہ ہے جسے دہل میں DDA کہتے ہیں۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی۔دہلی، پنجاب اور یو پر سمیت کئی ریاستوں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کاحال یہ ہے کہ اس نے اوقاف پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ وقف بورڈوں کی ملی جلی سازش سے یہ کام بڑی بے باکی اور مجرمانہ طریقے سے عمل میں آرہا ہے۔دہلی وقت بورڈ کے وقف جائداد کی بڑھتی سودے بازی نے کئی بڑے سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ اس جائداد کا استعمال قوم کے لئے بہترین اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کا قیام عمل میں آ سکتا تھا۔ صحت کی نگہداشت کے لئے نہ صرف بڑے اسپتال بلکہ میڈیکل کالج بھی قائم ہو سکتے تھے۔ جس سے پوری قوم مستفید ہوتی۔ لیکن اس کی غیر قانونی سودے بازی نے سیاسی لٹیروں کو بھی اس جانب متوجہ کرا دیا ہے کہ یہ بکنے والا ادارہ آپ کی بولی کا انتظار کر رہا ہے۔
وقف بورڈ کی یہ بے رخی کیوں ہے یہ سمجھ سے پرے ہے۔آیا انہیں بزرگوں کی روایت سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے خدمت خلق کی روایت انہیں اچھی نہیں لگتی۔ درگاہ یا قبر و مزار اور ان کی تاریخ پسند نہیں۔ لہٰذا ایک گھنونہ کام اور سامنے آیا کہ مسجدوں کو مسمار کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ چند برس قبل مہرولی کی غوثیہ مسجدسے شروع ہونے والا انہدام کا سلسلہ خسرو پارک کی مسجد اور لال مسجد تک ہوتا ہوا دہلی کی کئی اہم مساجد تل پہنچ چکا ہے۔ وقف بورڈ سامنے سا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔اس جائداد کی حقدار قوم بھی خاموش ہے۔ جب اس کے سیاسی نااہل رہنما ہی اس کے سوداباز ہیں تو بے چاری قوم کر بھی کیا سکتی ہے۔اس وقف بورڈ میں عقیدہ اور مسلکی تصادم کا بھی بڑا رول ہے۔ عام طور پر اس جائداد کے نگراں ایسے لوگ منتخب ہوتے ہیں جنہیں اس صوفیوں اور بزرگوں کی روایات سے کسی بھی قسم ربط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار خدمت خلق کے مثالی بزرگوں کی تاریخیں مسخ کر دی گئیں۔ ان کی روایات جلا دی گئیں۔یہ اپنی کوٹھیاں اور حویلیاں بناتے رہے۔ ابھی تک ایسے لوگ اس جائدا د کی نگہداشت کے لئے بورڈ کے ذمہ دار نہیں بنے جو صحیح معنوں میں اس کا جائز استعمال کر سکیں۔
جو بھی آیا ہے صرف مسمار اور کاروبار کیا ہے۔
حکومتوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف مسلم ادارہ یا اسی کے لئے مخصوص کوئی ادارہ اگر نہیں بنتا تو کم سے کم اس کا استعمال عام ہندوستانیوں کی فلاح بہبود کے لئے تو ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اور طبی مراکز قائم کر لے ملک کی لا علمی اور عدم صحت کو تو کم از کم دور کیا جا سکتا ہے۔اس بورڈ اور اس کے ساتھ DDA کی بد عنوانی اورناجائز کاروبار کو روکنا ہوگا۔اس جائداد کا صحیح اور جائز استعمال کر کے ملک اور قوم کی ترقی کے کئی اہم اور بڑے مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔وقف بورڈ میں کسی ایسے کی تقرری پر فوری رو ک لگائی جانی چاہئے تو ان کی تاریخ اور تعلیم سے واقف نہیں اور اس روایت میں یقین نہیں رکھتا ۔ کیوں کہ اگر اس کی ذاتی عقیدت نہیں ہے تو اس کاروبار ہی کرے گا۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi), Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
COMMENTS