HomeActivitiesZonal Activities

देवबंद के बदलते हुए उलमा से कुछ सवाल : डाक्टर अनवार अहमद ख़ान बग़दादी

 4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity https://www.youtube.com/watch?v=GxzkCCrfuOU بدلتے ہوئے علمائے دیوبند سے چند سوالات ڈاکٹرانوار اح

 4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

بدلتے ہوئے علمائے دیوبند سے چند سوالات
ڈاکٹرانوار احمد خان بغدادی

آج کل بعض دیوبندی علما کے بارے میں یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ وہ اجمیر معلی حضور شیخ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے مزار پر انوار پر نہ یہ کہ صرف حاضری کا شرف حاصل کر رہے ہیں بلکہ چادریں چڑھاکر اپنی صوفی اور چشتی ہونے کا ثبوت بھی فراہم کر رہے ہیں، جیسا کہ روزنامہ سہارا اور انقلاب کے صفحات گواہ ہیں۔
علمائے دیوبند کے موقف میں یہ تبدیلی یقیناًبہت اہم ہے، کیوں کہ ان کے اکابرین جس چیز کو شرکت وبدعت کہتے کہتے نہیں تھکتے تھے وہی چیزیں آج صرف جائز ہی نہ ہوئیں بلکہ علمائے دیوبند نے عملی جامہ پہنا کر یہ ثابت بھی کر دیا کہ حالات زمانہ کے ساتھ اب ہم بھی بدل رہے ہیں، اور بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تصوف کے تعلق سے بین الاقوامی منظر نامہ بدل رہا ہو تو دوسری طرف دنیا سے وہابیت کی بساط لپیٹی جا رہی ہو ایسے وقت میں علمائے دیوبند نہ بدلیں؟! جب کہ بدلنا ہی ان کی تاریخ ہے، جیسا کہ ان کے بزرگوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس جماعت کے لوگ کسی صاف موقف سے محروم ہیں یہ کبھی تو تصوف کی راگ الاپتے ہیں، کبھی وہابیت کی دہائی دیتے ہیں، کبھی مزارات پر حاضری دیتے ہیں تو کبھی حاضری دینے والوں کو مشرک وگمراہ بتاتے ہیں۔ غرضیکہ جیسا دیس ویسا بھیس کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے نفاق کی راہ چل بیٹھے ہیں۔یہ لیجئے اک نظر ڈالئے ان کی تاریخ پر۔
اسماعیل دہلوی کے وہابی افکار ونظریات کے بطن سے دو جماعتیں پیدا ہوئیں، ایک جماعت تقلید سے آزاد دوسری جماعت تقلید پرست، پہلی جماعت غیر مقلد کہلاتی ہے اور دوسری جماعت دیوبندیوں کی ہے ، ان دونوں جماعتوں کا قدرے مشترک عام مسلمانوں کو مشرک وگمراہ ثابت کرنا ہے، مزارات کی حاضری بزرگوں سے عقیدت اور تعظیم ان دونوں کے ہی نزدیک شرک وگمرہی ٹھہرتی ہے۔علاوہ ازیں کچھ دیوبندی علما مختلف فیہ مسائل میں رائے زنی کرتے ہوئے ایسے اقوال کا ارتکاب کر گئے کہ ان کے قلم سے نہ ناموس رسالت محفوظ رہا، نہ ہی تصوف اور ارباب تصوف بزرگان دین کی عقیدت واحترام کا پاس وخیال باقی رہا۔
مگر جب امام اہل سنت مصلح قوم وملت مولانا شاہ احمد رضا خان قادری برکاتی علیہ الرحمہ نے ان کے افکار وخیالات کا محاسبہ کیا،‘‘المعتمد المستند ’’اور‘‘ حسام الحرمین’’ جیسی مدلل اور مسکت کتاب لکھ کر علمائے حرمین شریفین سے اس پر تصدیقات لئے اور ان کی وہابی کج فکری کو طشت از بام کیا تو دیوبندی بلبلا اٹھے، کہنے لگے کہ مولانا احمد رضا نے ہماری عبارتوں میں خرد برد کرکے غلط مطلب گڑھ لیا ہے، اور اپنے دفاع میں ان تمام عقائد کا اقرار کر گئے جو بعد میں ان کے لئے وبال جان بن گئے چنانچہ اس جماعت کے ایک سرخیل عالم مولانا خلیل احمد سہارنپوری (ت ۶۴۳۱ھ)نے‘‘المھند علی المفند ’’لکھ کر امام احمد رضا کی کتاب‘‘المعتمد المستند ’’اور‘‘حسام الحرمین’’ کا جواب دینے کی کوشش کی جس میں صوفیہ کے تمام عقائد کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ: (ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمد اللہ فروعات میں مقلد ہیں،مقتدائے خلق حضرات امام ہمام امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے۔اور اصول واعتقادات میں پیرو ہیں، امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی رضی اللہ عنہما کے۔ اور طریقہائے صوفیہ میں ہم کو انتساب حاصل ہے، سلسلہ عالیہ حضرات نقشبندیہ اور طریقہ زکیہ مشائخ چشت اور سلسلہ بہیہ حضرات قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشائخ سہروردیہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ)۔(دیکھئے:‘‘المھند علی المفند ’’، ص: ۱۳ و ۲۳)
مگر جب پاکستان کے ایک غیر مقلد عالم ڈاکٹر طالب الرحمن نے اسی‘‘المھند علی المفند’’اور ان کی دوسری کتابوں کو سامنے رکھ کر دیوبندیوں کے صوفیانہ عقائد کو ثابت کرتے ہوئے‘‘الدیوبندیہ ’’نام کی ایک کتاب لکھی جس میں یہ ثابت کیا کہ علمائے دیوبند کے عقائد وہابی ازم سے میل نہیں کھاتے بلکہ ان کے عقائد صوفیانہ ہیں، وہ تو تصور شیخ، فنا فی الشیخ، وحدۃ الوجود، قبور اولیاء سے فیض یابی، دلائل الخیرات اورقصیدہ بردہ پڑھنے کی تلقین، بزرگوں کی روحوں سے فریاد، بزرگوں کے تصرفات وغیرہ جیسے عقائد کے قائل ہیں اور یہ سب باتیں علمائے دیوبند کی اصل مراجع سے ثابت کیا۔(دیکھئے: خلیل احمد سہارنپوری کی کتاب‘‘المھند علی المفند’’ پر ڈاکٹر طالب الرحمن کا مقدمہ تحقیق، ص: ۷ تا ۲۱)۔
اس کتاب (‘‘الدیوبندیہ ’’)کے منظر عام پر آتے ہی دیوبندیوں میں کھلبلی مچ گئی، پیروں تلے زمیں کھسکتی دکھائی دینے لگی کیوں کہ اس کتاب نے جہاں دنیا بھر میں دیوبندیوں کی تضاد بیانی اور نفاق کو طشت از بام کر دیا، وہیں مرکز تبرعات مملکت سعودیہ عربیہ کے اندر دیوبندیوں کی نقاب کشائی کر کے اصل چہرہ بھی پیش کردیا۔ اس لئے اک بار پھر دیوبندیوں نے وہی عبارت دہرائی کہ علمائے دیوبند کی عبارتوں میں خرد برد کرکے غلط الزامات لگائے گئے ہیں یعنی دیوبند کے عقائد اہل تصوف سے میل نہیں کھاتے، بلکہ علمائے دیوبند کو نہ جانے کیوں اتنی تکلیف ہوئی کہ بقول ڈاکٹر طالب الرحمن ان لوگوں نے اپنے مسلک کی صفائی اور وہابی ہونے کے ثبوت میں دو کانفرنسیں کر ڈالیں، ایک پشاور پاکستان میں اور دوسری دہلی انڈیامیں، یہی نہیں بلکہ اس کتاب کے رد میں علمائے دیوبند نے دو کتابیں بھی تصنیف کیں۔ (دیکھئے: خلیل احمد سہارنپوری کی کتاب‘‘المھند علی المفند’’ پر ڈاکٹر طالب الرحمن کا مقدمہ تحقیق، ص: ۵)۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اکابر علمائے اہلسنت نے علمائے دیوبند کا محاسبہ کیا تو دیوبند چیخ پڑا اور دعوی کرنے لگا کہ ہم وہابی نہیں ہیں ہم تو قادری چشتی اہل تصوف ہیں اور جب غیر مقلدین نے ان کے اسی تعلق کو واضح کرتے ہوئے صوفی بدعتی کہا تو پھر چیخ اٹھے، کہنے لگے ہم صوفی نہیں ہیں، آج ایک بار پھرورلڈ صوفی فورم کے بعد جب وہابیت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے تب بزرگان دین خواجہ غریب نواز اور تصوف کی یاد ستانے لگی ہے، آخر کب تک علمائے دیوبند آنکھ مچولی کا یہ کھیل کھیلتے رہیں گے؟!!
حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے دیوبندیوں کی تضاد بیانیوں کی تفصیل لکھی تو اس جماعت کے سرخیل بے باک صحافی ماہنامہ تجلی کے مدیر مولانا عامر عثمانی صاحب نے پڑھکر برجستہ لکھا کہ: (ہمارے نزدیک جان چھڑانے کی ایک ہی راہ ہے یہ کہ یا تو‘‘تقویۃ الایمان’’اور‘‘فتاوی رشیدیہ ’’،‘‘فتاوی امدادیہ’’اور‘‘بہشتی زیور ’’اور‘‘حفظ الایمان ’’جیسی کتابوں کو چوراہے پر رکھ کر آگ دے دی جائے اور صاف اعلان کر دیا جائے کہ ان کے مندرجات قرآن وسنت کے خلاف ہیں اور ہم دیوبندیوں کے صحیح عقائد‘‘ارواح ثلاثہ ’’اور‘‘سوانح قاسمی’’اور‘‘اشرف السوانح ’’جیسی کتابوں سے معلوم کرنے چاہئے یا پھر ان موخر الذکر کتابوں کے بارے میں اعلان فرما یا جائے کہ یہ تو محض قصے کہانیوں کی کتابیں ہیں جو رطب ویابس سے بھری ہوئی ہیں اور ہمارے صحیح عقائد وہی ہیں جو اول الذکر کتابوں میں مندرج ہیں)۔ (دیکھئے: علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی کتاب زلزلہ، ص: ۳۲ و ۴۲)۔
اس تاریخ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دیوبندی علما فکری ارتباک اور عقائد میں تذبذب اور نفاق کے شکار ہیں، ایک ہی چیز کبھی ان کے نزدیک شرک قرار پاتی ہے تو کبھی وہی چیز باعث خیر وبرکت بن جاتی ہے۔ عام طور پر جو بات صحابہ، تابعین اور متقدمین بزرگان دین کی شان میں مبالغہ پر مبنی دکھائی دیتی ہے وہی بات ان کے مولویوں کی کرامتیں بن جاتی ہیں۔ دنیوی مفاد کے پیش نظر کبھی وہابی ازم کی راہ چل پڑتے ہیں تو کبھی دامن تصوف سے اپنی وابستگی دکھاکر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ان کا تذبذب،ارتباک اور نفاق صاف ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالی ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین)
بہر حال خواجہ اجمیری غریب نواز علیہ الرحمہ کے مزار پر انوار پر حاضری دیکر علمائے دیوبند نے اک جرات مندانہ اقدام کیا ہے اپنے مسلک کی دیرینہ روایت کو توڑ کر اک تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے، اگر یہ تبدیلی سیاست سے پاک اور اخلاص پر مبنی ہے تو اس تبدیلی کو اس زمانے کی سب سے بڑی تبدیلی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ تصور شیخ، بزرگوں سے عقیدت، مزارات اولیاء کا احترام، حاضری اور چادر وگاگروغیرہ ایسے سلگتے ہوئے مسائل تھے جن پر علمائے دیوبند اورعلمائے اہل سنت ایک صدی سے لڑ رہے ہیں، اس لئے آج ان مواقف میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ اب فاصلے سمٹ رہے ہیں۔اب اس سمٹتے ہوئے فاصلوں پر ہمیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے بے سود تبصروں سے گریز کرکے ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب علمائے دیوبند جرات واقدام کی مزید بلندیوں کو پار کرتے ہوئے قدیم علمائے دیوبند کے عقائد باطلہ مثلا امکان کذب الہی، خاتمیت مصطفی ﷺ کی افضلیت کا انکار، علم غیب مصطفی ﷺ کی جانوروں اور پاگلوں سے تشبیہ، وغیرہ جیسی خطرناک قسم کی عبارتوں میں بے جا تاویل وتصرف کی بجائے کم از کم مشتبہات امور سے پرہیز کرتے ہوئے ان باطل عقائد سے برات کا اعلان کرکے تاریخ ساز اقدام کریں گے۔
ہمیں امید ہے کہ اگر موجودہ علمائے دیوبند کے نعرہ چشتیت میں اخلاص ہو گا تو قدیم علمائے دیوبند کے مذکورہ بالا بے ہودہ قسم کے باطل عقائد سے برات کا اعلان ضرور کریں گے۔
دو رنگی چھوڑ دے اک رنگ ہوجا

سراسر موم یا پھر سنگ ہوج

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0