HomeActivitiesZonal Activities

भारत देश में उम्मत की जुदाई पर एतिहासिक दस्तावेज़ : मोहम्मद मोहसिन निज़ामी,शैखुल हदीस जामिया बरकातीया हज़रत सूफी निज़ामुद्दीन, ज़िला संत कबीर नगर

4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity   بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی ونسلم علیٰ حبیبہٖ الکریم دیارِ ہند میں افتراق امت پر تاری

4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

 

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علیٰ حبیبہٖ الکریم
دیارِ ہند میں افتراق امت پر تاریخی دستاویز
متلاشیان جادۂ مستقیم کے لیے حق وصداقت پر مبنی ایک سنجیدہ تحریر
محمدمحسن نظامی
شیخ الحدیث جامعہ برکاتیہ حضرت صوفی نظام الدین لہرولی بازارپوسٹ ہٹواضلع سنت کبیرنگر
چیف ایڈیٹرسہ ماہی پیام نظامی لہرولی بازار

سن توجہاں میں ہے تیرافسانہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتی ہے خلق خداتجھ کو غائبانہ کیا

صحابی رسول عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا بے شک بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائیگی سارے فرقے جہنمی ہیں مگر ایک فرقہ توصحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ یہ فرقہ ناجیہ تہتر میں ایک کون ہے نبی غیب داں نے ارشاد فر مایا جس مذہب پر میں ہوں اورمیرے صحابہ ہیں ۔مسند امام احمد ابن حنبل اور سنن ابوداؤد کی روایت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ و ہ جنتی فرقہ جماعت ہے ’ھی الجماعۃ ‘اس حدیث پاک کی روشنی میں دورِ صحابہ سے لے کر آج تک جوفرقہ ناجی اور جنتی ہے وہ اہل سنت وجماعت سے موسوم ہوتاہے ۔اس حدیث کے ذیل میں شیخ ابراہیم عزیز ی جامع صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی ہمارے نبی ﷺ کا عظیم معجزہ ہے کہ آپ نے جس غیب کی خبر دی تھی ز مانے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ان تہتر فرقوں میں بہتر گم راہ ہوئے اور ایک جادۂ حق پر قائم رہا وہ فرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت ہے۔
فرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت ہے
لفظ اہل سنت وجماعت کااستعمال صدراول میں ہی شروع ہوگیا تھا۔حضرت امام مسلم اپنی صحیح کے مقدمہ میں مشہور تابعی امام محمد بن سیرین سے باسناد خود ایک روایت کرتے ہیں کہ ترجمہ:’’پہلے اسناد کے تعلق سے تفتیش نہیں ہوتی تھی لیکن جب فتنہ برپاہوگیا تو روایت کرتے وقت کہتے ہمیں اپنے راویوں کے بارے میں بتاؤ اگر اہل سنت و جماعت سے دیکھتے تو قبول کرلیتے اوربدمذہب دیکھتے تو اس کی روایت قبول نہیں کرتے ‘‘(ترجمہ مقدمہ صحیح مسلم)
اب اس سلسلے میں مشائخ کرام اور علمائے کبار کے نظریات ملاحظہ فرمائیے:غوث الثقلین ،قطب الکونین،حضور غوث اعظم محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ تہتر فرقوں والی حدیث پاک نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں ’فاماالفرقۃ الناجیۃ فھی اھل السنۃ والجماعۃ‘فرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت ہے ۔(غنیۃ الطالبین ؍حجۃ اللہ علی العالمین ص:۳۹۷)
حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہرشخص کوچاہئے کہ اعتقاداہل سنت کو اپنے دل میں جمائے کہ یہی اس کی سعادت کا تخم ہوگا۔(کیمیائے سعادت ص:۵۸)امام ابومنصور عبدالقاہر بن طاہر التیمی اس افتراق امت والی حدیث کے مطابق تہتر فرقوں کی تفصیل اور ان کے باطل عقائد رقم کرنے کے بعد فیصلہ کن انداز میں لکھتے ہیں(ترجمہ)پھر اس کے بعد افتراق امت کا ظہور ہوااور ہوتے ہوتے بہتر گم راہ فرقوں کی تعداد مکمل ہوگئی اور تہتر واں گروہ اہل سنت وجماعت ہے اور یہی جنتی فرقہ ہے (حجۃ اللہ علی العالمین ص:۳۹۷)
علامہ سید طحطاوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں (ترجمہ)اے اسلامی بھائیو!تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اس جنتی گروہ کے نقش قدم پر چلو جسے اہل سنت وجماعت کہاجاتاہے (المنحۃ الوھبیہ)
حضرت سیدی عبدالعزیز دباغ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :(ترجمہ) اس بندے پر ولایت ومعرفت کادرواز ہ نہیں کھل سکتاجومسلک اہل سنت وجماعت پر نہ ہو۔ اور اللہ کاکوئی ولی عقائد اہل سنت کے خلاف نہیں (الابریز ص:۲۴)
سوادِ اعظم اہلِ سنت وجماعت کی پیروی لازمی ہے
رسول گرامی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا تم سوادِ اعظم کی پیروی کروجو اس سے جداہوا وہ جہنم میں گیا ،حضرت ملاعلی قاری علیہ الرحمہ شرح مشکوۃ میں لفظ سوادِ اعظم کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’السوادالاعظم یعبربہ عن الجماعۃ الکثیرہ والمراد ماعلیہ اکثر المسلمین ‘سواد اعظم بڑی جماعت سے عبارت ہے اس سے مراد اکثر مسلمانوں کا مسلک ہے ۔امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہٗ فرماتے ہیں (ترجمہ) سواد اعظم سے مراد اہل سنت وجماعت ہیں سواد اعظم صحیح معنی میں کون ہیں اس سلسلے میں اہل سنت کے عظیم المرتبت محدث امام المحدثین شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہٗ نے اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ میں بڑی عمدہ گفتگو کی ہے انھوں نے فرمایا کہ اس سے پہلے جتنی بھی اہم کتابیں تفسیر وفقہ ،حدیث اور کلام میں اکٹھا کرلی جائیں اور ان کی روشنی میں تحقیق کرکے نتیجہ نکالا جائے تو یہ اہل سنت ہی سواد اعظم ہیں اوریہی ’مااناعلیہ واصحابی ‘ کا مصداق ہیں تفسیر وحدیث فقہ وکلام کی صدیوں قدیم کتب سے یہی ثابت ہے ۔
مسلک اہل سنت وجماعت کی تیرہویں چودہویں صدی ہجری کی نمائندہ شخصیات
تیرہویں صدی ہجری کی نمائندہ شخصیات کی اجمالی فہرست:علامہ عبدالعلی فرنگی محلی(ولادت :۱۱۴۴/وصال۱۲۳۵)شاہ اجمل الہ آبادی (۱۱۶۰ھ/۱۲۳۶) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۱۱۵۹/۱۲۳۹)شاہ غلام علی نقشبدی دہلوی(۱۱۵۸ھ/۱۲۴۰ھ)شاہ ابوسعید مجددی رام پوری (۱۱۹۶ھ/۱۲۳۶ھ)شاہ آل احمد اچھے میاں برکاتی مارہروی (۱۱۶۰ھ/۱۲۶۲ھ)شاہ احمد سعید مجددی رام پوری (۱۲۱۷ھ/۱۲۷۷ھ)علامہ فضل حق خیرآبادی(۱۲۱۲ھ/۱۲۷۸) علامہ فضل رسول بدایونی (۱۲۱۳ھ/۱۲۸۹ھ) سیدشاہ آل رسول احمدی مارہروی وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
چودہویں صدی ہجری کی نمائندہ شخصیات
مولانا عبدالحی فرنگی محلی لکھنوی (۱۲۶۴ھ/۱۳۰۴) مفتی ارشاد حسین رام پوری (۱۲۴۸ھ/۱۳۱۱ھ) مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (۱۲۰۸ھ/۱۳۱۳ھ)مولانا غلام دستگیر قصوری لاہوری (۱۳۱۵ھ)مولانا عبدالقادربدایونی (۱۲۵۳ھ/۱۳۱۹ھ)مولانا ہدایت اللہ رام پوری ثم جونپوری (۱۳۲۶ھ) مولانا خیرالدین دہلوی (۱۳۲۶ھ) امام احمد رضا خان فاضل بریلوی (۱۲۷۲ھ/۱۳۴۰)شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (۱۲۶۶ھ/۱۳۵۵ھ) شاہ مہر علی گولڑوی پنچابی (۱۲۷۴ھ/۱۳۵۶ھ)مولانا وصی احمد محدث سورتی (۱۳۳۴ھ)وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔
مذکورہ بالاشخصیات تیرہویں وچودہویں صدی ہجری میں سوادِ اعظم مسلک اہل سنت وجماعت کی وہ علم وعمل عزیمت واستقامت کی وہ بلند بانگ ہستیاں ہیں جنھوں نے متواتر ومتوارِث معمولاتِ اہل سنت کی ترویج واشاعت فرمائی اور افکار باطلہ ونظریاتِ فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور اسلام وسنت کے خلاف اٹھنے والی ہرتحریک کا قلع قمع فرمایا۔

برصغیر ہند اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ملک ہے اس ملک کی گنگاجمنی تہذیب ضرب المثل ہے کثرت میں وحدت یہاں کی امتیازی شان ہے اس ملک میں ظہور اسلام سے لے کر تقریباً پانچ سو برس تک فرزندانِ اسلام عقیدۃً سنی حنفی تھے اور معمولات اہل سنت کے سختی سے پابندتھے بدعقیدگی کا تصور بھی نہ تھا یہ سب صوفیاء کرام اور داعیان اسلام کی مسیحا نفسی اور ان کے اخلاص عمل اور فکر کی پاکیزگی کی برکت تھی ۔
امام ربانی مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں حنفی ہی حنفی تھے شافعی اور حنبلی مسلک کے لوگ تلاش کرنے میں بھی نہیں ملتے تھے ۔طوطئی ہند خواجہ امیرخسرو فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا بات ہے یہاں کے دریاؤں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی سنی ہیں۔ (رسالہ ردِّ روافض ص:۹)
مشہور غیرمقلد نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتاہے کہ خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے اسلام یہاں آیا ہے اس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے ہیں اور ہیں ۔(ترجمان وھابیہ ص:۱۰)
دوسری جگہ لکھتاہے کہ حنفیہ ہی سے یہ ملک بھراہے ان کا یہ بھی قول ہے کہ ہند کے مسلمان اکثر حنفی بعض شیعی اور کم تر اہل حدیث (ترجمان وہابیہ ص:۱۵)
ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ مسئلہ مبرہن ہوجاتاہے کہ دیارِ ہند کا مسلمان سوادِ اعظم مسلک اہل سنت وجماعت کا پابند اور حنفی المسلک رہا اور سلف صالحین نے جس شاہراہ مستقیم پر گامزن فرمایا تھا اسی کو اپنے لیے حرز جان بنایا لیکن ۔
خیر قرون سے لے کر جمیع مسلمین سوادِ اعظم اہل سنت وجماعت کے معتقدات ومسلمات کے متبع وپیروکاررہے دورِ تبع تابعین کے بعد ائمہ مجتہدین کے مسلک کی پیروی کو مدارنجات سمجھ کر ائمہ اربعہ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ ،سیدنا امام مالک ،سیدنا امام شافعی ،سیدنا امام احمد ابن حنبل رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید کو ضروری قراردیا گیا اور جو ان چاروں مسلک سے باہر ہوا باطل پر ہے ،علامہ سید طحطاوی حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں ’وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قداجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ وہم الحنفیوں والمالکیون والشافعیون والحنبلیون رحہم اللہ تعالیٰ من کان خارجا عن ھذ ہ الاربعۃ فی ھذ الزمان فھوا من اھل البدعۃ والنار‘
ہر شخص اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ عالم اسلام کی سب سے بڑی جماعت مقلدین کی ہے اور ان مقلدین میں نوے فیصد حنفیوں کی تعداد رہی ہے اور آج بھی ہے اور جن لوگونے تقلید سے گلوخلاصی کرلی ان کی تعداد انتہائی قلیل ہے ،پھر بھی شیشے کے محل میں بیٹھ کر پہاڑ سے ٹکرانے کا ناپاک جذبہ ان کے سینوں میں اٹکھیلیاں لیتاہے ۔
سوادِ اعظم اہل سنت وجماعت سے ہٹ کر ماضی قریب کا ایک نوزائیدہ فرقہ وہابیہ نجدیہ کا ہے۔تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں سحرائے نجد سے ایک ایسی مذہبی تحریک نے جنم لیا جسے برطانوی استعمارکی سرپرستی وپشت پناہی حاصل تھی اس تحریک نے اپنے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے ذریعہ متحارب قبائل نجد کو مجتمع کرکے ایک زبردست مذہبی وسیاسی اور عسکری طاقت وقوت پیداکرلی اور حجاز مقدس کی طرف اس کے قدم بڑھنے لگے آل شیخ اور آل سعود کی سازشوں اور متحدہ کوششوں سے ۱۹۳۵ ء میں حرمین طیبین پر اس کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا اور بزور شمشیر اپنے مخصوص افکاروخیالات کو نظام حکومت میں داخل کرکے سرزمین حجاز اور پھر عالم اسلام کے لیے قیامت آشوب مشکل پیدا کردی ،علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے عقائد سے اختلاف رکھتے ہیں وہ پکے مشرک ہیں ،اسی سبب سے انھوں نے اہل سنت وجماعت سے قتل وقتال کیا اور انھیں اور ان کے علما کے قتل کو جائز سمجھا اس تحریک کی بنیاد شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی نے (متولد۱۱۱۱ھ ) نے رکھی جو آج تک وہابی تحریک کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔
عالم اسلام کی یہ بڑی بدنصیبی تھی کہ شیخ نجدی نے سواداعظم اہل سنت وجماعت کے ساتھ ایک نیا محاذ قائم کرکے اسلام کی ایسی تعبیر وتشریح کرنے لگا جو بالکل اجنبی اور غیر مانوس تھی ،اور جزیرۃ العرب میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کردیا ، علامہ شیخ احمد صاوی علیہ الرحمہ ایک آیت کریمہ کی تفسیر میں وہابیہ کو خوارِج میں شمار فرمایا ہے ،اور تفسیر جلالین کے حاشیہ میں ان پر نیست ونابود ہو نے کی دعافرمائی ہے (حاشیہ صاوی ص:۳۲۸)
ایسے ہی قاضی شوکانی یمنی کا بھی خیال ہے جو ان کا تابع فرمان نہ ہو وہ دائرہ اسلام سے خارِج ہے ،دیوبندیوں کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند شیخ نجدی کے حالات تحریر کرنے کے بعد رقم طراز ہیں : الحاصل وہ ایک ظالم وباغی خونخوار فاسق شخص تھا اسی وجہ سے اہل عرب کو خصوصاً اس سے اور اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے کہ اتنا قوم یہود سے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے( الثہاب الثاقب ص:۴۲)
نیز یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ شیخ نجدی کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل عالم اور تمام مسلمانان دیار کافرومشرک ہیں اور ان سے قتل وقتال کرنا اور ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب ہے ۔(الثہاب الثاقب:۴۲)
محمد ابن عبدالوہاب نجدی نے اپنے باطل افکارونظریات کی ترویج واشاعت کے لیے بادۂ توحید کے متوالوں اور عشق رسول سے سرشارمسلمانوں سے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع کردیا جو شخص اس کا متبع ہوا اس کو مشرک کہتا ہے اور اس سے قتل وغارت گری کو جائز سمجھتاہے ،عرب کے مسلمان سواد اعظم اہل سنت وجماعت کے عقیدہ پر تھے اور اسلاف کی روایات کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے انبیاء اولیاء سے توسل واستغاثہ کو جائز سمجھتے تھے اور صحابہ کرام کے قبوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور شعائر اللہ کی تعظیم کرتے تھے ،شیخ نجدی کے مسلک میں یہ ساری چیزیں غلط اور بدعت تھیں ،اس لیے اس کو مٹانے کے لیے اس نے فوجی طاقت اکٹھاکی اور سب سے پہلا معرکہ ریاض میں ہوا،جس میں کل چارہزار عرب موحدین مارے گئے اور اس کے قول کے مطابق مشرکین مارے گیے امیر الاحساء سے آل سعود کے تعاون سے شیخ نجدی نے جنگ کی احساء میں خون ریز وہلاکت کا بدترین مظاہرہ کیا احساء میں جس قدر مزارات پر گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو گرادیا اور مشاہد کے تمام آثار مٹادیا اسی سال سعود نے حضرت امام حسن حضرت طلحہ ودیگر صحابہ کرام کے مزارات کو منہدم کردیا اوراس سلسلہ میں بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا ،پھر کربلائے معلی کی طرف چلا اور بھاری لشکر ساتھ لیا ، بلدحسین کے باشندوں پر حملہ کیا اکثر باشندوں کو گھروں اور بازاروں میں تہہ تیغ کیا امام حسین کے مزار پر انوار کے قبہ کو ڈھادیا اور سارامال ومتاع لوٹ لیا قبہ زمرد یاقوت اور جواہر سے آراستہ تھا سب کو لوٹ لیا تقریباً دوہزارباشندے اس جنگ میں مارے گیے ۔(تاریخ نجد وحجاز ص:۶۳؍۷۳)
دیارِ ہند میں اختلاف وافتراق کی شروعات کیسے ہوئی
مشہور نقش بندی عالم مولانا ابوالحسن زیدفاروقی دہلوی وصال ۱۹۹۳ء کی یہ تحریر کافی عبرت انگیز ہے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے زمانے سے آج تک ہندوستان کے مسلمان دوفرقوں میں بٹے رہے ،ایک اہل سنت وجماعت دوسرے شیعہ اب مولانا اسماعیل دہلوی کا ظہور ہواوہ شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز شاہ رفیع الدین شاہ عبدالقادر کے بھتیجے تھے ،ان کا میلان محمد بن عبدالوہاب نجدی کی طرف ہوااور نجدی کارسالہ ردالاشراک ان کی نظر سے گذر ااور اردو میں انھوں نے تقو یۃ الایمان لکھی اس کتاب سے مذہبی آزادخیالی کا دور شروع ہواکوئی غیر مقلد ہواکوئی وہابی بناکو ئی اہل حدیث کہلایا کسے نے اپنے کو سلفی کہا ائمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا وہ ختم ہوامعمولی نوشت وخواندکے افراد امام بننے لگے اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم واحترام میں تقصیر ات کا سلسلہ شر وع کردیا گیا ،یہ ساری قباحتیں ماہ ربیع الآخر ۱۲۴۰ھ ۱۸۵۲ء کے بعد سے ظاہر ہونی شروع ہوئیں (مولانا اسماعیل اور تقویۃ الایمان ص:۹ازمولانا زید دہلوی)
مشہور غیر مقلد عالم وحیدالزماں حیدرآبادی نے لکھا ہے کہ مولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کی پیروی کی ہے (ہدیۃ المہدی )
مشہور دیوبندی عالم احمد رضا قاسمی بجنوری لکھتے ہیں کہ افسوس کہ اس کتاب کی وجہ سے مسلمانان ہند وپاک جن کی تعداد بیس کرورڑ سے زیادہ ہے اور تقریباً نوے فیصد حنفی المسلک ہیں دوگروہ میں بٹ گیے ایسے اختلافات کی نظیر دنیا اسلام کے کسی بھی خطے میں ایک امام اورایک مسلک کے ماننے والوں میں موجود نہیں ہے ۔(انوارالباری ص:۱۰۷)
مولانا انورشاہ کشمیری لکھتے ہیں کہ ابن عبدالوہاب نجدی ایک بے وقوف کم علم شخص تھا ،کافرکہنے کے حکم میں جلد بازی کرتاتھا۔(فیض الباری ص:۱۷)
شیخ نجدی کے والد متوفی (۱۷۴۰ء ۱۱۵۳ھ ) نہایت صالح العقیدہ بزرگ مشہور عالم دین اور فقیہ تھے وہ شیخ نجدی کوتنقیص رسالت مآثر صحابہ اور تکفیر المسلمین جیسے گمراہ عقائد پر ہمیشہ سرزنش کرتے رہتے اسی طرح ان کے اساتذہ بھی اس کے تخریبی افکار پر اس کو ہمیشہ ملامت کرتے رہتے تھے۔
(تاریخ نجد وحجازص:۳۸)
مصنف تقویۃ الایمان کا اپنی کتاب کے بارے میں تأثر
مولوی اسماعیل دہلوی تقویۃ الایمان کے نتائج واثرات کے حوالے سے اپنے خیالات کااظہار یوں کرتے ہیں :میں نے یہ کتاب لکھی ہے اور میں جانتاہوں کہ اس میں بعض جگہ ذراتیز الفاظ آگیے ہیں ،اور بعض جگہ تشدد ہوگیا ہے ،شرک خفی کو شرک جلی لکھ دیا ہے ،اندیشہ ہے کہ اس کی اشاعت سے شورش ضرور ہوگی ، مگر توقع ہے کہ لڑبھڑ کر خودٹھیک ہوجائیں گے ۔(ارواح ثلثہ ص:۸۱)
ذرااپنے پہلو میں چھپے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر انصاف کو آواز دیجیے اور غور کیجیے کہ اس عبارت میں کتنے تیر ونشتر چھپے ہیں اور افتراق بین المسلمین کی کیسی فضا ہموار کی جارہی ہے ۔
اس عبارت پر شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کا یہ درد ناک نوٹ ملاحظہ فرمائے :مولوی اسماعیل دہلوی کی یہ توقع پوری ہوئی اس سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا قتال وخوں ریزی ہوئی اور اب تک ہورہی ہے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہوگیا گھر گھر اختلاف پیداہوابھائی بھائی کا دشمن ہوگیا اور ہورہا ہے رہ گئی یہ توقع کہ ٹھیک ہوجائیں گے ایں خیال است محال است وجنوں ۔(سنی دیوبندی اختلافات کا منصفانہ جائزہ ص:۳۷)
مولانا یٰسین اختر مصباحی لکھتے ہیں کہ ڈھائی سو کتابوں کی لسٹ میری نظر سے گزرچکی ہے جو تقویۃ الایمان کے چھپتے ہی مختلف زبانوں میں مختلف علاقوں سے اس کی تردید میں لکھی گئی ہیں ۔مولانا منورالدین اور تمام علمائے دہلی سے جامع مسجد کا شہرۂ آفاق مناظرہ ہوا جس میں فریق مخالف مولوی اسماعیل دہلوی اور عبدالحی بڈھانوی تھے ان علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں آیا ،بالآخر لاجواب ہوکر بھاگ گئے(مولانا ابوالکلام آزاد کی کہانی ص:۶)
اسماعیل دہلوی کی موت کے بعد وہابیت دوشاخوں میں بٹ گئی اور ان کے ماننے والے وہابی علما کا دوگروپ بن گیا مگر وہابیت کی پہلی شاخ غیر مقلدیت کو وہ قبول عام حاصل نہ ہواجو مقلد دیوبندیوں کو ہو ا،وہابیت کی دونوں شاخیں محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کو مانتی ہیں دونوں کے عقائد ایک جیسے ہیں ،دیوبندیوں کے قطب رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں :محمد بن عبدالوہاب نجدی کے مقتدیوں کو وہابی کہا جاتا ہے ان کے عقائد عمدہ تھے ان کے مقتدی اچھے ہیں مگر ہاں جو حد سے بڑھ گیے ان میں فساد آگیا ہے اور عقائد سب کے متفق ہیں ۔(فتاوی رشیدہ جلد ۱ص:۱۱۹)
براہین قاطعہ مصنفہ خلیل احمد انبیٹھوی جب شائع ہوئی تو مولانا غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمہ نے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سے تحریری مناظرہ کیا اور یہ مناظرہ بمقام بھاول پور نواب کی نگرانی میں شو ال ۱۳۰۶ھ میں ہوااس مناظرہ کے حکم اور فیصل والی ریاست بھاول پور کے پیر ومرشدشیخ المشائخ خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف تھے ،مناظرہ میں مولوی خلیل احمد اور ان کے معاونین کو شکست فاش ہوئی اور مناظر ہ کے فیصل نے یہ فیصلہ سنایا کہ انبیٹھوی صاحب مع اپنے معاونین کے وہابی اہل سنت سے خارج ہیں ۔شرم تم مگر نہیں آتی
آج کل دیوبندی علمااور عوام اپنے آپ کو اہل سنت وجماعت کے نام سے متعارف کراتے ہیں تاکہ توہین نبوت ورسالت اور تنقیص شان الوہیت پر مکروفریب کا پردہ ڈال دیا جائے اور عامۃ المسلمین کو باور کرادیا جائے کہ ہم تو اہل سنت وجماعت سے ہیں لیکن علمائے اہل سنت وجماعت نے اس عیاری وفریب کاری کے لبادے کے تارتار کو بکھیر دیا اور کہہ دیا۔
اس کے بعد مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو ریاست بھاول پور سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا ۔(تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل ص:۱تا۱۷)
یہ چند ضروری باتیں عامۃ المسلمین کے لیے تحریر کردی گئیں ہیں تاکہ اس کو پڑھ کر آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹاکر حق وصداقت کی منزل کو پاسکیں ۔

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0