HomeActivitiesZonal Activities

तसव्वुफ और आज के हालात व असरात: मुफ्ती सनाउल मुस्तफा मिस्बाही

 4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity https://www.youtube.com/watch?v=PlIEvZYBeJs   تصوف اور آج کے حالات واثرات  مفتی ثناء المصطفیٰ م

 4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

 

تصوف اور آج کے حالات واثرات 
مفتی ثناء المصطفیٰ مصباحی 
استاذ ومفتی دارالعلوم حنفیہ بیادگار امام احمدرضارنگ روڈ کلیان پور لکھنؤ یو پی
پانچویں صدی عیسوی دنیا کی تاریخ میں بد ترین زمانہ تھا ،انبیائے کرام کی تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں انسانیت جاں بلب تھی،اشرف المخلوقات کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر رحمت حق کا بحر رحمت موجزن ہوا تو دنیا کی اصلاح کے لئے مصلح اعظم کو مبعوث فرمایا اور آپ پروہ کتاب نازل فرمائی جو تمام علوم کا منبع و معدن ہے،اور جس سے بڑھ کر اخلاقی تعلیم دنیا کی کسی تعلیم میں نہیں خود ہادئی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔اس کی تائید قرآن میں بھی ہے۔توحید اور حسن خلق ہی دو ایسی چیزیں ہیں جو تصوف کی روح رواں ہیں۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو اس وقت تقریباًتمام عرب حلقۂ بگوش اسلام ہو چکا تھا وہ عرب جہاں دختر کشی،قماربازی،شراب نوشی،استحصال بالجبروغیرہ بکثرت رائج تھے اسلام کے بعد امن،تہذیب،حسن اخلاق اور علم وعمل کا گہوارہ بن چکا تھااور ایک بڑی جماعت دنیا کی معلم اور راہبربننے کی قابل ہو چکی تھی۔یہ تھا وہ دورجہاں سے حقیقی تصوف کاآغازہوتا ہے۔
صحابۂ کرام کے دور میں تو اسلام عروج کی طرف گامزن تھا مگر خلفائے راشدین کے بعد جب اسلام تنزل کی طرف آنے لگا تو ہر وہ طبقہ جو اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا تھا وہ جابر وظالم حکمرانوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر باہر جنگلوں میں نکل آئے اور لوگ بھی آہستہ آہستہ جب اپنے احوال کی اصلاح کے لئے ان کے پاس جانے لگے تو وہاں خانقاہیں بننی شروع ہوگئیں اور اس طرح تصوف ایک باقاعدہ نظام بن گیا۔
تصوف کیاہے؟
منکرین تصوف کے لایعنی اعتراض سے صرف نظر کرتے ہوئے معروف صوفیائے کرام کی روشنی میں تصوف کی تعریف ملاحظہ کریں۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں’’ من عاش فی باطن رسول اللہ فھو صوفی ‘‘ترجمہ:جو باطن رسول اللہ پر زندگی بسر کرے وہ صوفی ہے۔
امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں ’’التصوف انما ھوزبدۃ عمل العبدباحکام الشریعۃ‘‘ترجمہ:تصوف بس احکام شرع پر بندے کا عملی خلاصہ ہے۔
امام محمد غزالی ارشادفرماتے ہیں۔’’التصوف عبارۃ عن تجرد القلب للہ تعالیٰ واستحقارما سویٰ اللہ وحاصلہ یرجع الی عمل القلب والجوارح ومھمافسدالعمل فات الاصل‘‘:ترجمہ تصوف اس کا نام ہے کہ دل خدا کے لئے خالی ہو اور ماسوی اللہ کو خاطر میں نہ لائے اس کا حاصل یہ ہے کہ قلب اور اعضا سے متعلق اعمال وافعال درست ہوں،جب عمل فاسد ہو گا تو اصل ہی فوت ہوجائے گی۔خلاصہ یہ ہے کہ تصوف نام احکام شریعت کی پابندی،حسن رواداری کا،انکساری وعاجزی کا،احترام انسانیت کا،آداب بارگاہ الوہیت و رسالت کا۔
تصوف و اہمیت:جوشخص مذہب کا پیروکار ہے مگر تصوف پر عامل نہیں اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے حلوائی کی دکان پر ساری عمر حلوہ بنایا اورخود کبھی نہ کھایا ۔انسان تصوف ہی کی بدولت خدا سے مکمل رابطہ پیدا کر سکتا ہے۔تصوف دل کی نگہبانی کا دوسرانام ہے کیوں کہ انسان بظاہر جسم اور نفس کا نام ہے مگر در حقیقت دل کا نام انسان ہے اور جب دل مسلمان نہ ہو سکا تو رکوع و سجدہ یا زباں سے خدا کا اقرار بے معنی ہے۔

تصوف کی حقیقت:حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں :’’لیس التصوف رسوما ولا علوماولکنہ اخلاق‘‘ترجمہ:رسم وعلم کا نام تصوف نہیں ہے بلکہ حسن اخلاق کا نام تصوف ہے۔یعنی تصوف ریاضت ومجاہدہ اور تعلیم سے حاصل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تصوف تو سراپا اخلاق ہے۔یہاں تک کہ اگر اس کے حکم اپنی ہستی میں جاری نہ کرو اور اس کے معاملات کو اپنے وجود میں نافذ نہ کرو اور اس کے انصاف کو اپنے اوپر استعمال نہ کرو تو ہرگز تصوف حاصل نہ ہوگا۔رسم واخلاق میں فرق یہ ہے کہ رسم تکلف ومحنت اور اسباب و ذرائع سے حاصل ہوتا ہے لیکن اخلاق بے تکلف ومحنت اور بغیر اسباب وذرائع کے باطن کے موافق ظاہر میں کئے جانے اور دعویٰ سے خالی ہونے کا نام ہے۔
تصوف کی ضرورت :یہ امر بدیہی ہے کہ ایک اچھا معاشرہ اچھے افراد ہی سے تشکیل پاتا ہے اگر افراد صالح کردار کے مالک ہوں،تقویٰ وصالحیت ان کے سرشت میں داخل ہوتو ایسے افراد کے اجتماع سے ایک صالح اور مثالی معاشرہ وجود میں آئے گااور اگر افراد کھوکھلے کردار کے مالک ہوں گے تو ان کی شخصیتیں ایثار وقربانی ،عاجزی و انکساری اور ہمت جرأت سے عاری ہوں گی توایسے افراد سے صالح اور کامیاب معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔چوں کہ اسلام کا مقصدروئے زمین پر ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی منشاء بھی یہی ہے کہ اس کے محبوب رحمت عالم کی امت پر مشتمل جو معاشرہ معرض وجود میں آئے وہ صالحیت وتقویٰ کے زیور سے آراستہ ہو ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء اور غلاموں کی یہ صفات بیان فرمائی۔’’محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفاررحماء بینھم(الفتح )ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں‘‘
دہشت گردی کے انسداد میں تصوف کا اہم کردار :اصل موضوع پر آنے سے پہلے آپ جہاد اور دہشت گردی میں فرق سمجھ لیجئے کہ جہاں ہر ملک و قوم کی ضرورت ہے۔بغیر جہاد کے نہ کوئی ملک محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی قوم لیکن دہشت گردی یہ بالکل جہاد کے خلاف ہے کیوں کہ دہشت گرد شہر کے شہر اجاڑ دیتا ہے اور پوری قوم کو تباہ وبرباد کر دیتاہے۔مگر آج کچھ نا سمجھ حضرات اور عقل و فہم سے عاری لوگ اپنی کج فہمی و کم عقلی کی بناء پر دہشت گردی کو جہاد سمجھ کر اور کچھ فہم ودانش کے مالک حضرات اپنی عیاری ومکاری کی بنا پر دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر اس کی خوب تشہیر کر کے بھو لے بھالے مسلمانوں کو شامل کر رہے ہیں۔اور انہیں بدنام کر رہے ہیں۔ما قبل میں ہم نے ذکر کیا کہ تصوف حسن اخلاق ہی کا نام ہے اور صوفیائے کرام نے ہمیشہ اپنے حسن اخلاق ہی کی بنا پر لوگوں کو گرویدہ بنا لیااور انہیں مذہب اسلام کی طرف راغب کر لیا ۔آپ کوفتح مکہ کا واقعہ بتاتا ہوں کہ جب مکہ فتح ہوا اور مسلمان شان و شوکت کے ساتھ ان پر غالب ہوئے تو کفاربہت نالاں و پشیماں ہوئے کہ اب ہمارا جینادشوار ہو جائے گا او ہم چین وسکون کی نیند نہیں لے پائیں گے،اور یہ بات بھی فطرت کے عین مطابق ہے کہ کوئی بھی اپنے جانی دشمن کو معاف نہیں کرتالیکن اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کسی پر ظلم وستم نہ ہوگا،سب کے ساتھ عدل وانصاف ہوگا۔اور سب کو شہری حقوق دئے جائیں گے۔پھر میں آپ کے ذہن کو واقعۂ کربلاکی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جب حر نے حضرت امام حسین کو اپنے قبضہ میں رکھ کرایک جگہ رات کو پڑاؤڈالا تھاناگاہ یزیدی فوجیوں کے پاس پانی ختم ہو گیااور وہ لوگ شدت پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو گئے۔تو اس وقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا اور اپنے رفقاء کا سارا پانی یزیدی فوجیوں کو دے دیا اور اس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کی اب ہم سب کا کیا ہوگا۔اصل تصوف اسی کا نام ہے کہ غیروں پر بھی رحم کھایا جائے اگر چہ وہ تمہاراجانی دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
اخیر میں ہم صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ اگر پوری دنیائے اسلام میں صوفیت کا فروغ ہو جائے او ر تصوف کے اصل مفہوم سے لوگ واقف ہو جائیں تو لوگ اصل اسلام اور اسلام کی تعلیمات سے واقف ہوجائیں گے اور ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے صوفیائے کرام کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آج جو حقیقی اسلام پوری دنیا میں باقی ہے وہ انہیں کی محنت شاقہ ہی کا نتیجہ ہے ۔اللہ تعالی ہمیں صوفیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
مآخذ ومراجع
۱۔ کشف المحجوب اردو
۲۔ کتاب اللمع فی التصوف اردو
۳۔ سلوک وتصوف کا عملی دستور
۴۔ کیمیائے سعادت
۵۔ اہل سنت کی آواز تصوف نمبر

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0