HomeUncategorized

اولاد آدم کو حضرت آدم کا بھولا ہوا سبق پڑھانا صوفی ازم کا اہم مقصد: شیخ اشرف آفند ی،جرمنی

جنوری19 ،2020) دوپہر ۲ بجے سے شام ۵ بجے تک غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ”امن وامان کے قیام میں صوفیا کا کردار“ کے عنوان سے ایک خصوصی نشست کا


جنوری19 ،2020) دوپہر ۲ بجے سے شام ۵ بجے تک غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ”امن وامان کے قیام میں صوفیا کا کردار“ کے عنوان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کی جانب سے کیا گیا ۔
غالب اکیڈمی میں منعقدہ صوفی نشست سے خطاب کرتے ہوئے معروف انٹر نیشنل صوفی اسکالر شیخ اشرف آفندی (جرمنی)نے کہا کہ لوگ دنیا میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک صرف بلڈنگیں اور عمارتیں دیکھنے کے لیے سیاحت کرتے ہیں،جب کہ انھیں عمارتوں کی بجائے اچھے اور اعلیٰ اشخاص یعنی صوفیا اور بزرگان دین کی زیارت سفرکرنا چاہیے۔موصوف نے کہا کہ ہم دہلی صرف لال قلعہ،جامع مسجد اورقطب مینار دیکھنے نہیں آئے بلکہ یہاں جو صوفیا اور اہل اللہ آارام فرماہیں،ان کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت آدم علیہ السام ہی دنیا کے سب سے پہلے انسان ہیں،اور دنیا کی پوری آبادی انھیں کی اولاد ہے۔اور حضرت آدم علیہ السلام صرف پہلے بشر ہی نہیں اس دنیامیں اللہ کے پہلے نبی بھی ہیں۔اسی طرح وہ اس دنیا کے پہلے مومن بھی ہیں۔آدم علیہ السلام جنت سے آئے،اور جنت ہی سے ایمان کا تحفہ بھی لے کر آئے۔ایمان ہمارے لیے حضرت آدم کا لایا ہوا قیمتی تحفہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سید شمیم احمد منعمی، خانقاہ منعمیہ نے کہا کہ خانقاہوں نے کبھی بھی کسی کا مذہب اور نام یا ذات ویکھ کر کسی کی خدمت نہیں کی۔صوفیا کا مطمح نظر الخلق عیال اللہ کا ہو تا ہے۔وہ انسانی برادری کو ایک کنبہ اور ایک خاندان کی طرح مانتے ہیں۔ان کاا خلاق عام انسانوں سے بہت بلند ہو تا ہے۔ان کا نظریہ تخلقوا باخلاق اللہ کا اصول ہو تا ہے۔وہ اللہ کے اخلاق سے متصف ہوتے ہیں۔اللہ تعالی نے چاند وسورج اور زمین وآسمان بنائے، ہوااورپانی کو وجود بخشا،مگر اس کی افادیت کافر اور مومن کے اعتبا رسے نہیں رکھی،بلکہ اس سے ہر کوئی مستفید ہوتا ہے۔اسی طرح صوفی بھی اپنے فیض سے سارے جہان کو منور کرتا ہے۔سب ہی اس کے آستاں سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین، جے این یو نے کہاکہ صوفیا کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہواہے۔اور ہر خطے میں اہل اللہ کے مزارات اور ن کے تہذیبی آّ ثار موجود ہیں۔حکومتیں اگر چاہیں تو ان سلاسل کے ذریعے اقوام عالم کو ایک دوسرے کے قریب کرسکتی ہیں۔فروغ تصوف اور احیائے تہذیب کے حوالے سے انھوں نے حکومت ہند کے ذریعے کی جانے والی کو بھی سراہا اور کہا کہ حکومت کوئی بھی اس کے مثبت رویے سے استفادے کے جو مواقع ہو ں انھیں گنو انا نہیں چاہیے۔
مولانامقبول احمد سالک مصباحی نے کہا کہ سرزمین ہند کی ولایت مطلقہ بارگاہ رسالت پناہی علیہ السلام سے حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری رضی اللہ عنہ کوعطاہوئی ہے، خوجہ ہند شہنشاہ ہند ہیں، انھوں نے اپنی غیر معمولی روحانیت سے تعلیم اسلام سے لوگوں میں محبت اور بھائی چارہ پیدا کیا۔خواجہ غریب نواز کی حکمت وبصیرت اور ان کی فراست مومنانہ اہل ہند کے اشخاص اور داعیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ان کے بتا ئے ہوئے راستے پر چل کر ہم نفرت وعداوت کی آندھیوں کو سرد کرسکتے ہیں۔

مولانا عبدالمعید ازہری اور مولانا غلام رسول دہلوی نے بھی اظہار خیال کیا، نظامت کے فرائض مولانا ظفرالدین برکاتی، چیف ایڈیٹرماہنامہ کزالایمان اور مولانامختار اشرف نے انجام دیئے۔سید شاداب حسین رضوی،رئیس اشرفی،عظیم اشرفی نے آنے والے تمام مہمانوں کاشکریہ ادا کیا۔آخر میں مہمانان کی گل پوشی کی گئی۔ جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے طلبہ واساتذہ،حافظ وقاری انصار احمد خطیب وامام برکاتیہ مسجد،حاجی،رفیع احمد صدر اعلی برکاتیہ مسجدکے علاوہ مختلف مساجد کے ذمہ داران اور مدارس کے اسا تذہ نے بھی شرکت کی۔

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0