HomeActivitiesZonal Activities

मानवता के अस्तित्व में नैतिकता का किरदार, तसव्वुफ की शिक्षाओं के विशेष संदर्भ में डाक्टर सईद बिन मखाशिन सहेयक प्रोफेसर, अरबी विभाग मौलाना आज़ाद नेशनल उर्दू यूनिवर्सिटी

4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity https://www.youtube.com/watch?v=rR1vBwEoBfI       انسانیت کی بقا میں اخلاقیات کا کردار،تع

4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

 

 

 

انسانیت کی بقا میں اخلاقیات کا کردار،تعلیمات تصوف کے خصوصی تناظر میں
ڈاکٹر سعید بن مخاشن
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ عربی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

الحمد للہ الذی خلق الانسان وزینہ بمحاسن الاخلاق والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد المبعوث لتکمیل مکارم الاخلاق وعلی آلہ وصحبہ الذین اھتدوا بھدیہ الی معارج الاخلاق
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انسانیت نے سب سے پہلے اخلاقیات کا لفظ ،معنی اور مفہوم انبیاء کرام علیہم السلام کی افعال مقدسہ اور اقوال مبارکہ سے جانا،یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھوں نے انسانیت کواخلاقیات کے مزین لباس اور مرصع اکلیل سے زینت بخشی.اور اپنی قوموں کے سامنے بداخلاقی کے تیز وتندآندھیوں کے باوجود اخلاقیات کے چراغوں کو روشن کیاجس کے فیضان نور سے بد اخلاقیوں کی ظلمتیں رفتہ رفتہ کافور ہوتی گئیں اور انسانی افراد پر مشتمل ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئی.
تعلیمات تصوف کا مرکز ومحورتزکیہ نفس اور اسکا عملی مظہر اخلاق کریمانہ ہے جوکہ انسانیت کی بقا کیلئے لازم وملزوم کا درجہ رکھتے ہیں ۔ درحقیقت تزکیہ نفس ہی سرورکائنات ﷺ کی بعثت کا مقصد ہے ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ(آل عمران:۱۶۴) بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایاکہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اسکی آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہے.
اس آیت میں تزکیہ کے ساتھ تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کا جو ذکر آیا ہے وہ تزکیہ کے وسائل اور ذرائع ہیں،جیساکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی بعثت کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔مجھے اخلاق کریمانہ کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔
راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو دوبارہ جادہ حق پر گامزن کرنے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ حضوراحمد مجتبی محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناپر مکمل ہوگیا.اب جب کبھی مسلمانوں کے ایمانی حرارت میں اضمحلال ،دینی جذبہ میں پژمردگی ،اعمال میں کوتاہی اوراخلاقی اقدارمیں انحطاط طاری ہوتا ہے دنیا نظریں اٹھاکر ان نفوس عالیہ کے آمد کی منتظر رہتی ہے جو تمام عالم کو اخلاق کریمانہ کے بھولے ہوئے اسباق دوبارہ یاد دلا کر ان کے سروں پر عز وشرف کے تاج رکھتے ہے،جن کی ایک نظر عنایت سے دلوں کے حال بدل جاتے ہیں اورکیمیا اثر صحبت سے ایمانی حرارت پیدا ہوجاتی ہے،یہی وہ نفوس عالیہ ہیں جنھیں آپ اور ہم اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کے نام سے یاد کرتے ہیں، جن کے علم وفضل اور رشدوہدایت کا سورج دنیا کے ہر خطہ میں طلوع ہوتا ہے اور ان کی تعلیمات اور فرمودات کے انوار سے دنیا کے تمام علاقے منور اور فیضان سے تمام خطے عرصہ دراز سے سیراب ہوتے آرہے ہیں،جن کی صحبت با فیض دلوں میں اسلامی اوامر اور احکامات جاگزیں کردیتی ہیں او ران کی مجلس میں حاضر ہونے والاہر شخص اسلامی اخلاق وکردا ر کا عملی نمونہ بن کر انسانیت کی صلاح ،فلاح اور بقا کا ضامن بن جاتاہے.
تعریف:صوفیاء کرام کے تعلیمات ،فرمودات اور نگارشات کی روشنی میں اگر اخلاقیات کی تعریف او رارکان کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ آج کی سسکتی ہوئی انسانیت کیلئے تصوف اور تعلیمات ہی محفوظ پناہ گاہ ہے ،جہاں انسانیت نہ صرف اپنے وجود کی حفاظت کرسکتی ہے بلکہ اس کی ترقی اور عروج بھی اسکا مقدر بن جاتی ہے.
غرض وغایت:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اخلاق کی غرض وغایت حصول سعادت قرار دیتے ہیں جو انسانیت کی بقا اور ترقی کیلئے لازم وملزول کی حیثیت رکھتی ہے،آپ ؒ رقم طراز ہیں:
’’یہ واضح رہے کہ انسان میں ایک بہت بڑا کمال ودیعت ہے، جس کا تقاضہ اس کی صورت نوعیہ کرتی ہے ۔یعنی انسان جس ہیئت وصورت کی وجہ سے انسان کہلاتا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ا س میں یہ ’’عظیم الشان کمال‘‘موجود ہو جس سے تمام مخلوق الہی محروم ہے اور اسی کا نام سعادت حقیقی ہے.(حجۃ اللہ البالغۃ ، بحث سعادت، ص ۵۰)
دین اسلام ’’خلق‘‘ ہی کا دوسرا نا م ہے۔اور تصوف کی حقیقت بھی ’’خلق‘‘کے علاوہ او رکچھ نہیں ہے۔حضرت محمد بن علی بن اما م حسین بن علی رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں:’’التصوف خلق، فمن زاد علیک فی الخلق زاد علیک فی التصوف‘‘(حضرت سید علی بن عثمان ہجویری: کشف المحجوب، مترجم :غلام معین الدین نعیمی اشرفی،لاہور، دعا پبلی کیشنز، ۲۰۱۲،ص۵۵)تصوف اخلاق کریمانہ کا نام ہے پس جو شخص جس قدر اخلاق حسنہ کا مالک ہے اسی قدر تصوف میں بھی بلند درجہ کا حامل ہے .
حضرت مرتعشؓفرماتے ہیں:’’التصوف حسن الخلق‘‘تصوت اخلاق حمیدہ کا نام ہے۔(کشف المحجوب،ص۵۸)حضرت ابو علی قزوینی ؒ فرماتے ہیں:’’التصوف ھوالاخلاق الرضیۃ‘‘پسندیدہ اور محمودہ افعال واخلاق کا نام تصوف ہے(حوالہ سابق)
اسکے علاوہ خلق حسن کے بارہ میں علماء اخلاق کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں:
(۱)حسن خلق کی حقیقت، جودو کرم کی بہتات، ایذادہی سے پرہیز اور ایذاوتکالیف کی برداشت میں مضمر ہے.
(۲)حسن عمل پر ثبات، اور بد عملی سے پرہیز ، حسن اخلاق کا مصدر ہیں .
(۳)رذائل سے پاک اور فضائل سے مزین رہنے کا نام حسن خلق ہے۔
حسن اخلاق کے ارکان:
حسن اخلاق اور اخلاق فاضلہ کے چار ارکان ہیں:صبر، عفت، شجاعت اور عدل.(مدارج السالکین، ج۲ ص۱۷۶)
خلاقیات شریعت کی نظر میں:
اسلام ،جوساری انسانیت کیلئے ایک آفاقی اور عملی مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت سلیمہ اور عقل کریم کے عین مطابق ہے،جس کے دینی او ردنیوی قوانین ہر گوشہ میں کامل و مکمل ہیں اسی طرح اس گوشہ اخلاقیات میں بھی ایک بے نظیر او بلندقانون کا پیغامبر ہے.اللہ کے رسول دﷺ نے اپنی بعثت کا سب سے بڑا مقصد ومرکز ’’اخلاق‘‘ کے’’عروج کامل‘‘ ہی کو بتا یا ہے۔انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق:میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کریمانہ کو ان کی آخری بلندیوں تک پہنچاؤں. اور قرآن عزیز نے آپ کے لئے سب سے بڑا شرف اسی کو قرار دیا ہے ۔انک لعلی خلق عظیم: بلاشبہ آپ عظیم الشان اخلاق کریمانہ کے حامل ہیں.
علاوہ ازیں اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف حسن خلق کے فضائل بیان کئے ہیں بلکہ اس عظیم صفت سے متصف ہونے والے بندوں کے لئے خوشخبری بھی سنائی ہے:
قال رسول اللہ ﷺ خالق الناس بخلق حسن(ترمذی)لوگوں سے حسن اخلاق کا معاملہ کرو۔قال: ان من اخیرکم احسنکم خلقا(بخاری)آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جوحسن اخلاق کا مالک ہو۔عن ابی الدرداء ان النبی ﷺ قال ما من شیء اثقل فی میزان المؤمن یوم القیامۃ من خلق حسن ،وان اللہ لیبغض الفاحش البذی(ترمذی) نبی اکرمﷺ نے فرمایا مسلمان کے لئے قیامت کے روز میزان عدل میں خلق حسن سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہوگی۔ او راللہ تعالی بدگو بد خلق کو سخت ناپسند کرتا ہے.
قال رسول اللہﷺ انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق(طبرانی)آپ ﷺ نے فرمایا :میر ی بعثت کا مقصد یہ ہی کہ میں محاسن اخلاق کی تکمیل کروں.
اس قدر مختصر الفاظ میں ایسی بلند حقیقت کا اظہار کیاگیا ہے کہ رہرو راہ طریقت اور صاحب خلق حسن کے لئے اس سے زیادہ بہتر راہنمائی ناممکن ہے اس لئے کہ ’’حسن خلق‘‘جبکہ ایسی حقیقت کانام ہے جو حقوق و فرائض کی صحیح نگہداشت کرتی ہے او رانہیں کے مقتضاء کے مطابق اعمال کی کفیل بنتی ہے تو جب کوئی شخص ان حقوق وفرائض کی ادا سے محروم یا قاصر رہے گا جو اس پر خدائے تعالی کی ذات سے متعلق ہیں اور اپنے اور خداکے درمیان مخلوق خدا کو لے آئیگا تو بلاشبہ وہ اس معاملہ میں’’حسن خلق ‘‘سے محروم یا قاصر سمجھا جائیگا.اسی طرح اگر وہ مخلوق خدا کے معاملات کے درمیان اپنے نفس کو آگے لے آیااو راس کو ترجیح دینے لگاتو پھروہ اس دوسرے معاملہ میں بھی ’’حسن خلق‘‘سے درماندہ اور عاجز نظر آئیگااور کسی طرح اس صفت عالیہ سے متصف نہ ہوسکے گا.(اخلاق اور فلسفہ اخلاق، ص ۵۳۰)
اخلاقیات اور انسانیت کی بقا:
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے انسانیت کی بقا ایک صالح معاشرہ پر موقوف ہے اور اسلام نے ہمیشہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا حکم فرمایاہے او راسکی اساس تقوی او راخلاقیات پر قائم کی ہے،کیونکہ انسانیت کی بقا،منکرات اور رذائل سے پاک معاشرہ ہی میں پنہاں ہے ۔اسی لئے اسلام نے جہاں ظاہر ی آلودگیوں سے پاک رہنے کا حکم دیا ہے وہی باطنی آلائشوں سے بھی پاکی کی دعوت دی ہے ۔اور جب تک کوئی معاشرہ اخلاقیات کے زیور کو نہیں اپناتا اور برائی و منکر ات سے احترازنہیں کرتا تب تک ایک صالح معاشرہ کی تشکیل نہ صرف مشکل بلکہ محال ہوتی ہے ۔صالح معاشرہ کی تشکیل اور مکارم اخلاق کی تکمیل کا دراومدار رذائل غضبیہ و معایب شہویہ کو ترک کرنے اور فضائل کے اکتساب پر موقوف ہے ۔صوفیہ کی تعلیمات او ران کا کردار ظاہری و باطنی گناہوں کو چھوڑنے کا عملی پیام ہے ۔اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :وذروا ظاھر الاثم وباطنہ(سورۃ الانعام:۱۲۰)ظاہری و باطنی گناہوں کو چھوڑدو . ولا تقربوا الفواحش ماظھر منھا ومابطن(سورۃ الانعام:۱۵۱) ظاہری اور باطنی فحش کے قریب مت جاؤ۔کیونکہ اللہ تعالی نے بندوں کو ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے انعامات سے نوازا ہے ، ارشاد ربانی ہے : واسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ وباطنۃ(سورۃ لقمان:۲۰)اس نے تمہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔یہ ظاہری اور باطنی نعمتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ انسان ظاہر کے ساتھ باطن کو، جسم کے ساتھ قلب و روح کو بھی مزکی او رمصفی بنائے ،تزکیہ نفس تمام ظاہری اور باطنی گوشوں سے بحث کرتاہے او راس کامنشا خوب سے خوب تر کی تلاش اور جستجوہے او ر جسے یہ حاصل ہوجائے وہی فلاح پاتاہے ،اللہ تعالی کافرمان ہے: قد افلح من تزکی وذکراسم ربہ فصلی(سورۃ الاعلی:۱۴،۱۵)کامیاب ہوگیا وہ شخص جسے تزکیہ حاصل ہوا اور اپنے رب کا نام لیااور نماز پڑھا۔دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا(سورۃ الشمس: ۹،۱۰) وہ شخص مراد کو پہنچا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا.حضرات صوفیاء کرام کی مبارک زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہیکہ ان کی زندگی اور تعلیمات اور فرمودات ،دینی اوامر کی آئینہ دار، اسلامی تعلیمات کی علمبردار اور انسانیت کی صلاح اور فلاح کی ضامن ہوتی ہے

 

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0