HomeUncategorized

مختار اشرف لائبریری بلاتفریق مسلک ومذہب ملک کی چند نامور لائبریریوں میں سے ایک ا ہے: سید محمد اشرف کچھوچھوی

مولانا سید اظہار اشرف کچھوچھوی کے تعلیمی نظریات پر یونیورسٹی سطح پرریسرچ کی ضروورت ہے۔ مولانا مقبول ا حمد سالک مصباحی سلسلہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کی ع

مولانا سید اظہار اشرف کچھوچھوی کے تعلیمی نظریات پر یونیورسٹی سطح پرریسرچ کی ضروورت ہے۔
مولانا مقبول ا حمد سالک مصباحی
سلسلہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کی عالمی شہرت کی حامل علمی وروحانی شخصیت مولانا مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی محدث کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ کی حیات وخدمات پر آپ کے سالانہ عرس کے موقع پر آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کے لائک پیج پر لائیو سمپوزیم کا انعقاد،جس میں متعدد اہم اسکالر س،علما ومشائخ اور خاص کر حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی صدر آل انڈ یا علما ومشائخ بورڈشریک ہوئے جس سے پروگرام کی اہمیت بڑھ گئی۔پروگرام کے میزبان معروف صحافی اور میڈیااسپیشلسٹ محترم مختار اشرف نے اپنی نپی تلی اور پرفیکٹ میزبانی سے سمپوزیم کو چار چاند لگا دیا۔موص…
مختار اشرف لائبریری بلاتفریق مسلک ومذہب ملک کی چند نامور لائبریریوں میں سے ایک ا ہے۔
سید محمد اشرف کچھوچھوی
مولانا سید اظہار اشرف کچھوچھوی کے تعلیمی نظریات پر یونیورسٹی سطح پرریسرچ کی ضروورت ہے۔
مولانا مقبول ا حمد سالک مصباحی
سلسلہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کی عالمی شہرت کی حامل علمی وروحانی شخصیت مولانا مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی محدث کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ کی حیات وخدمات پر آپ کے سالانہ عرس کے موقع پر آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کے لائک پیج پر لائیو سمپوزیم کا انعقاد،جس میں متعدد اہم اسکالر س،علما ومشائخ اور خاص کر حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی صدر آل انڈ یا علما ومشائخ بورڈشریک ہوئے جس سے پروگرام کی اہمیت بڑھ گئی۔پروگرام کے میزبان معروف صحافی اور میڈیااسپیشلسٹ محترم مختار اشرف نے اپنی نپی تلی اور پرفیکٹ میزبانی سے سمپوزیم کو چار چاند لگا دیا۔موصوف شیخ اعظم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سوالات کیے،مقررین اور شرکائے سیمپوزیم نے اس کے جامع جوابات دیے۔
حضرت مولانا رضی احمد مصباحی،ارریہ،بہار نے خاندانی پس منظر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم العلما حضرت علامہ ومولانا مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی محدث کچھوچھوی رحمتہ اللہ کا تعلق خاندان رسالت سے تھا جس کو حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے تحفظ وبقا کی اہم ذمہ د اری سونپی ہے،سرکار کی بارگاہ ناز سے لے کر کچھوچھہ شریف تک حضرتحاجی عبد الرزاق نورالعین کی وساطت سے ایک تسلسل قائم ہے۔کچھوچھہ میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ فیضان رسالت پناہی ہے۔
مفتی شاہنوا زاشرفی جامعی،خطیب وامام جامع مسجد،درگ،چھتیس گڑھ نے کہا کہ مخدوم العلما حضرت علامہ ومولانا مفتی سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی محدث کچھوچھوی رحمتہ اللہ نے شیخ اعظم کی فن حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ہر سال آپ ختم بخاری شریف کرایاکرتے تھے۔اور جب بھی مسند حیث پر بیٹھتے تو ایک خاص قسم کا نور آپ کے چہرے پر جلوہ گر ہوتاتھا،جو عام دنوں میں نظر نہیں آتاتھا۔اور ختم بخاری شریف میں آپ کی ہونے والی تقریر کی خصوصیت یہ تھی کہ ہر سال نیا مضمون بیان ہوتا۔کبھی مکرر نہ ہوتا۔اور دوسرے اتنے عام فہم انداز میں بیان کرتے کہ کم پڑھا لکھا اور اناڑی کسان بھی سمجھ جاتا تھا۔طلبہ پر شفقت کا انداز تو بہت ہی نرالا تھا۔نادار طلبہ کی کفالت بھی کرتے۔جب بھی سفر سے آتے طلبہ کو نذرانے پیش کرتے،موسمی پھل کھلاتے۔سہ منی اتنا بنواتے کہ سارے طلبہ شکم شیر ہو کر کھالیتے۔اساتذہ کی ضروریات پر بھی کڑی نظر رہتی۔
معروف سنی صوفی اسکالر حضرت مولانامقبول احمد سالک مصباحی،بانی ومہتمم جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،نئی دہلی نے خانوادہ اشرفیہ کے تاریخی تسلسل پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ خانوادہ اشرفیہ کی نسبت سلطان التارکین،القدوۃ الکبری، اوحدالدین میر کبیر حضرت سید محمد مخدوم اشرف نور بخشی سمنانی،سامانی کے نام پاک کی جانب ہے مگر اس کی رگوں میں حاجی الحرمین حضرت حاجی عبد الرزاق نور العین کا دوڑ رہاہے۔جن کے بارے میں حضرت مخدوم پاک نے فرمایا تھا کہ لوگ اپنی اولاد اپنی پست سے پید اکرتے ہیں،میں عبدالرزاق کو اپنی آنکھوں سے پید اکیاہے۔
سالک دہلوی نے خصوصیت کے ساتھ شیخ اعظم کی تعمیری،تعلیمی اورتربیتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں شیخ اعظم سرسید ثانی تھے،بس فرق یہ ہے کہ سر سید جد ید تعلیم کے میدان میں جانے گئے اور شیخ اعظم علوم دینیہ کے حوالے سے پہچا نے گئے۔شیخ اعظم کا تعلیمی نظریہ اتنا جدید اور تعمیری ہے کہ اس پر باضابطہ تحقیق کی ضرورت ہے،اور اسے ایک منہج عمل کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اور جہاں تک آپ کی ذاتی قابلیت کی بات ہے تو آپ ایک عظیم محدث،عظیم فقیہ ومفتی،اور نثر نگا ر وشاعر تھے۔آپ کی عظیم علمی یادگار منظوم مثنوی مولانا روم علیہ الرحمہ ہے۔اور یہ غالبا اردو زبان میں اکلوتی کاوش ہے۔آپ کی شاعری انتہائی موثر اور سلیس ہے،لفظ لفظ سے عشق رسالت پھوٹتا ہے۔آپ کی شاعری اور منظوم ترجمہ پرباضابطہ پی ایچ ڈی کی جاسکتی ہے۔مولانا مصباحی نے مجدد تعلیمات اشرفیہ حضور اشرف ملت سے کہا کہ یہ کام اب شروع ہوجاناچاہیے۔
سید معاذ اشرف اشرفی جیلانی،کچھوچھہ شریف بارگاہ شیخ اعظم میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیخ اعظم نے ہماری رہ نمائی کے لیے اپنے فرزندوں کیاایسی تربیت فرمائی ہے کہ ان کی شکل میں ہمیں اپنا مربی اورسر پرست دکھائی دیتا ہے۔حضرت قائد ملت معلمین ومدرسین کے لیے اور اشرف ملت علما ومشائخ اور نوجوانوں کے لیے ایک سایہ دار درخت کی طرح ہیں۔سلسلہ اشرفیہ ان حضرات کی موجودگی میں کسی مسئلے کا شکار نہیں ہوسکتی۔
آخر میں مجدد تعلیمات اشرفیہ حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی صدر آل انڈ یا علما ومشائخ بورڈ نے اپنے افکار وخیالات سے آگاہ فرمایا،اور پنے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں حضور والد گرامی شیخ اعظم قدس سرہ کی حیات وخدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مختار اشرف لائبریری اس وقت قائم کی جب آپ عمر کی آخری منزل میں پہونچ چکے تھے۔آپ کو یہ اندیشہ کھائے جاتا تھا کہ اگر ہمارے پاس ایک مرکزی لائبریری نہیں رہی تواسلام دشمن طاقتوں نے اسلاف کی کتا بوں خصوصا علم حدیث میں اگر تحریف کر دیا ہمیں یاان میں تبدیلی کردی تو پھر ہم ان کا کسیے مقابلہ کریں گے۔لائبریری کے بارے میں شیخ اعظم کا ایک بڑالارج کنسیپٹ تھا،آپ نے لائبریری کے قیام کے وقت ذہین علما کودارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلما،اورعلی گڑھ یونیورسٹی میں بھیجاتاکہ ان کا طریقہ کار معلوم کریں،اور ان کے بالمقابل لائبریری تعمیر کی جاسکے۔لائبریری سے متصل ایک کمپیوٹر روم بھی بنا یا گیا،تحقیق کے مقصد سے آنے والے اسکالرس اور محققین کے لیے لائبریری سے متصل رہائشی کمرے تعمیر کروائے۔تبرکات اوراسلامی آثار کو محفوظ کرنے کے لیے میوزیم بنوایا،پوری دنیا سے جدید ترین کتا بوں کا کلیکشن جمع کر کے لائبریری کو عالمی معیار کا بنادیا۔مختار اشرف لائبریری کی تعمیر شیخ اعظم کا عظیم علمی کارنامہ ہے۔جسے بلاشبہہبلاتفریق مسلک ومذہب ملک کی چند نامور لائبریریوں میں گنا جاسکتا ہے۔
حضرت اشرف ملت نے کہاکہ حضرت کی شاعری فی البدیہ اور انتہائی زبردست ہوا کرتی تھی۔مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ آپ کا عا لمی معیار کا اردو ادبی کارنامہ ہے۔اور یہ کئی جلدوں میں ہے۔عمرکے آخری حصے میں جب آنکھوں کی بینائی متاثر ہوگئی، منظوم ترجمے کو اساتذہ سے املا کروایا کرتے تھے۔آ پ کی شاعری کامجموعہ بھی تین جلدوں میں شایع ہوچکا ہے۔حضرت اشرف ملت نے خصوصیت کے ساتھ سرکار غریب نواز سے اور غوث اعظم سے آپ کی بے پناہ عقیدت کا چرچا کیا۔اور کہا کہ اگر جامع اشرف کابجٹ بارگاہ غوثیت مآب سے منظور ہوا مگر اس کا بجٹ ریلیز کروانے کے لیے باضابطہ اجمیر جایا کرتے تھے۔اور اجمیر سے واپس آکر عرس سرکارکلاں میں اس کی تفصیلات بیان کرتے۔
عصری علوم کے لیے بھی آپ کے ذہن میں بڑی تڑپ تھی،انشاء اللہ اس کا کام الااشرف ٹرسٹ کے ذریعے یہ کام ہوگا۔حضرت نے جو کچھ کیاخالصتا لوجہ اللہ کیا۔چاپلوس ان کے قریب بھی نہیں جاسکتا تھا۔صرف نعرے لگانے والے اور میٹھی میٹھی بات کرنے والوں کا وہاں گزر ہی نہیں تھا۔پورا جاعم اشرف تعمیر کرڈٖالا مگر کیمپسں میں کوئی بورڈ ہی نظر نہیں آتا تھا۔کام کا نظر یہ تھا کہ کام شروع کرنے سے پہلے یقین پدیا کرو،ارادہ کروا تو اس کا آغاز کردو،کوشش جاری رکھو،آخری سانس تک محنت ہونی چاہیے۔پروگرام تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔
رپورٹ: ڈاکٹر سراج احمد مصباحی،
ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ نگر،اوکھلا،نئی دہلی

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 0