HomeActivitiesZonal Activities

सुनहरे बोल : हज़रत सय्यद मखदूम अशरफ जहाँगीर सिम्नानी रहमतुल्लाह तआला अलैहि

 4th December,Lucknow, Seminar: Sufism and Humanity اقوال زریں  تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایمان و توحید کے بع

 4th December,Lucknow,
Seminar: Sufism and Humanity

اقوال زریں 
تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ایمان و توحید کے بعد بندہ پر سب سے پہلے عقائد حقہ شریعہ کا جاننا فرض ہے۔
علم حاصل کرو کہ زاہد بے علم شیطان کا تابعدار ہوتاہے اور عابد بے فقہ کمہار کے گدھوں کی طرح ہے۔
علم ایک چمکتا ہو اآفتاب ہے اور تمام ہنر اس کی شعائیں ہیں۔
خدا کا دوست جاہل نہیں ہوتا۔
عالم بے عمل ایساہے جیسے بے قلعی کا آئینہ۔
عالم دین اورعالم دنیا میں فرق وہی ہے جو کھرے اورکھوٹے چاندی میں ہوتاہے۔
جاننا شریعت ہے ، جاننے کے مطابق عمل کرنا طریقت ہے اور دونوں کے مقصود ہوتو ان کا حاصل کرنا حقیقت ہے۔
جو شخص بے محل علمی گفتگو کرتا ہے تو اسکے کلام کے نور کا دو حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی جان لے کہ اب اسکی زندگی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گئے تو چاہیئے کہ علم فقہ میں مشغول ہوجائے کیونکہ علوم دین سے ایک مسئلہ جان لینا ہزار رکعت سے افضل ہے۔
کسی کو حقارت سے نہ دیکھو اس لئے کہ بہت سے خداکے دوست اس میں چھپے رہتے ہیں۔
سلوک میں اگربارگاہ نبوی و سرکارمصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری واطاعت کے راستے سے کچھ بھی انحراف ہو تو منزل مقصود تک پہونچنا ممکن نہیں۔
بند وں کے دل میں اللہ کی محبت پیدا کرنا اور ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی دوستی میں مستغرق کرنا مشائخ طریقت کا کام ہے۔
پیر وہ ہونا چاہیئے کہ طالبان طریقت و سلوک کی ایک جماعت نے اس کی تربیت کی پناہ میں اور احباب اس کی درگاہ حمایت میں اپنے مقصود کو پہونچی ہو۔
ولی وہ ہے جس کا دل حق سبحانہ وتعالیٰ سے انس رکھیاور غیرحق سے متواحش اور گریزاں ہو۔
شرط ولی یہ ہے کہ گناہوں سے محفوظ ہو جس طرح نبی کی شرط یہ ہے کہ معصوم ہواور جس کسی پر بھی ازراہ شریعت اعتراض ہو پس وہ مغرور اور فریب خوردہ ہے ولی نہیں ہے۔
ہر بزرگ کی کوئی بات یاد کرلو اگریہ نہ ہوسکے تو ان کے نام ہی یاد کرلو کہ اس سے نفع پاؤگے۔
؂اگر علم کا چراغ ولی کے دل میں نہ ہو تو اسے شر کی خبر نہیں ہوسکتی اور وہ صحرائے ظلمت اور دشت کدورت میں مارا مارا پھرتا رہیگا۔
صالحین کا ذکر اورعارفین کا تذکرہ ایک نور ہیجو ہدایت طلب کرنے والوں پر ضوء4 فگن رہتاہے۔
شیخ طبیب حاذق اور تجربہ کارحکیم کی طرح ہے جو ہر مریض کا علاج اور اس کی دوا اس کے مزاج کے مطابق تجویز کرتاہے۔
جس شخص کا قدم شریعت میں جم جائے گا طریقت کا راستہ خودبخود کھل جائے گا اور جب شریعت کے ساتھ طریقت حاصل ہوجائے گی تو حقیقت کی تجلی خود بخود رونما ہوجائے گی۔
صوفی وہ ہے جو صفات الہیہ سے سوائے صفت وجوب (وجب الوجود) اور قدم موصوف ہو۔
اگر کسی صوفی کو دیکھو اور وہ تمہاری نظر میں نہ جچے تو اس کو ذلیل نہ سمجھوکہ یہ محرومی اورحجاب کی دلیل ہے۔
حسن خلق اس بلند پایہ گروہ یعنی صوفیہ کی خاص خصلت ہے جو انہیں ہی زیب دیتی ہے کہ یہ حق کے زیور اور کلام کے لباس سیروشن ہوتیہیں تمام اقوال وافعال میں صوفی کی نظر چونکہ حق تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ اس لئے لازم آتاہے کہ وہ تمام مخلوق سے خوش اخلاق کا برتاؤ کرے۔ اگر شریعت کیمطابق کسی محل پر سختی درکارہے تو سختی کرے ، لیکن باطن کے مطابق اسی وقت اللہ سیمغفرت طلب کرے۔
شیخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرید کے احوال سے واقف ہو ، ترک دنیا اور تنہائی کے علوم کا عالم ہو تاکہ اس کی خیر خواہی کرسکے اور مرید کو راہ راست دکھا سکے۔ اس کے حال کے مناسب اس کو اس راہ کے خطرات اور فسادات سے آگاہ کرسکے۔ اگر شیخ اس اوصاف مذکورہ سے متصف نہیں ہوگا تو اس کی پیروی کرنا کس طرح جائز ہوسکتاہے۔ اور ان سے کلاہ حاصل کرنا کس طرح روا ہوسکتا ہے۔
مرید کے لئے ایک شیخ کامل ضروری ہے جس کی اقتداء4 کی جائے کیونکہ وہ رفیق سفر ہے اور جا ن لو کہ اس امر کے لئے کسوٹی اور معیار ہے اور وہ قرآن و حدیث و اجماع امت با ایمان ہے تو جو معیار کے موافق ہوا اور کسوٹی سے کھرا اور آمیزش سے صاف نکلا تو وہ ٹھیک ہے اور جو اس کے خلاف ہوا وہ فاسد اور بے کار ہے۔
شیخ کو چاہئے کہ مرید کا بیکار اور غلط کاموں کا مواخدہ کرے۔ خواہ وہ کم ہویا ذیادہ۔ صغیر ہو یا کبیر۔ اس سلسلہ میں مواخذ ہ کو نظر انداز نہ کرے اور تساہل کو روزانہ رکھے۔
پاک غذا ایک بیج کی طرح ہے جو معدہ کی زمین میں بویا جاتا ہیاگر وہ بیج پاک اورحلال غداکا ہے تواس سے اعمال صالحہ کا درخت پیدا ہوگا اور اگر مشتبہ روزی کا بیج بویا گیا ہے تو اس خطرات فاسدہ اور عبادت میں کسائل پیدا ہوگی یعنی عبادت میں سستی اور دل میں وسوسے پیدا ہوں گے اور اگر حرام روزی ہے تو معصیت و نافرمانی کا درخت نشودنما پائے گا۔
مرید کو چاہیئے کہ اس کا مقصود ومراد اپنے پیر کے سوا کوئی نہ ہو اور سارا مقصد اس کا ، ذاتِ شیخ کے سوا کچھ نہ ہو کیو نکہ شیخ کی صورت میں حق تعالیٰ کی تجلیاں ہیاور جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کردے۔یہ اللہ تعالی ٰ کی شان ہے پیر بیچ میں سبب ہونے سے زیادہ کچھ نہیں ہے

COMMENTS

WORDPRESS: 0
DISQUS: 1