نئی دہلی 15 اکتوبر] پریس ریلیز] آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ نے لا کیشن کے سوالنامہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا تین طلاق کی
نئی دہلی 15 اکتوبر] پریس ریلیز]
آل انڈیا علما و مشائخ بورڈ نے لا کیشن کے سوالنامہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا تین طلاق کی منسوخی اور یکساں سول کوڈ سے ملک کی ترقی کی رفتار بڑھ جائے گی اور اگر مسلمانوں کو یکساں حقوق دینے کی نیت ہے تو آئین کی دفعہ 341 سے مذہبی قید ہٹانے سے گریز کیوں؟
سنی صوفی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا علما ومشائخ بورڈ کے صدر اور بانی حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے آج یہاں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی دفعہ 341 میں مذہبی قید لگا کر حکومت نے مسلم فرقہ کے پچھڑے طبقات کو ان سہولتوں سے محروم کر دیا جو دیگر برادران وطن کے ان ہی طبقات کو حاصل ہیں اور اب ایک غیر ضروری معاملہ اٹھا کر خواہ مخواہ ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جسٹس راجیندر سچر کی قیادت میں بنائی گئی ایک کمیٹی نے اپنی سفارش میں یہ بات کھل کر کہی ہے کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہو گئی ہے اور اس سفارش کے پیش نظر حکومت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی سماجی،تعلیمی،مالی اور سیاسی حالت بہتر بنانے کے اقدام کرے گی لیکن اس کی بجائے تین طلاق اور یکساں سول کوڈ کا معاملہ پوری شدت کے ساتھ بحث میں لا کھڑا کیا گیا۔اور اس بحث میں عوامی ذرائع ابلاغ پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے جن مسلم عورتوں کو لا یا جارہا ہے ان میں اکثریت سلفی اورغیر مقلدین کی ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بورڈ کے دو اہم عہدیداروں سید تنویر ہاشمی اور سید سلمان چشتی کے ساتھ ماسکو روانگی سے قبل کل رات بورڈ کے صدر دفتر میں نامہ نگاروں سے حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ ملک میں پہلے سے ہی ایک قانون چل رہا ہے۔ فوجداری اور دیوانی دونوں یکساں قوانین سارے شہریوں پر باضابطہ نافذ ہیں۔صرف نکاح طلاق اور وراثت کے قوانین میں ہی تما م مذاہب کے پرسنل لاز پر عمل ہو رہا ہے۔شادی میں بھی اسپشل میریج ایکٹ نافذ اور زیر عمل ہے۔شادی طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین میں مداخلت سے ملک کی ترقی یا اس کی خوش حالی میں کیا فرق پڑے گا نہیں معلوم۔اس لئے بورڈ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں اس لئے بورڈ بہت جلد ہندوستان بھر کے مفتیان کرام کی ایک بڑی کانفرنس منعقد کر کے اس سوال پر ان کی تحریری رائے طلب کرکے اور تمام پہلوؤں پر غور کر کے ایک نتیجہ پر پہنچے گا اوروہی نتیجہ بورڈ کا حتمی موقف ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے کہا کہ جومسلم خواتین تین طلاق کے خاتمے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذکا مطالبہ کر رہی ہیں ان کا تعلق اہل حدیث سے ہے۔وہ چاروں ائمہ میں سے کسی کے مسلک کی تقلید نہیں کرتیں۔چاروں ائمہ نے تین طلاق کے معاملہ کی اجازت دی ہے۔غیر مقلد اس سے متفق نہیں۔سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کو یہ حق کہاں سے حاصل ہو گیا کہ اس سے تعلق رکھنے والی عورتیں تمام ہندوستانی مسلم خواتین کی نمائندہ بن کر کھڑی ہوں۔آئین نے ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔
حضرت مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ طلاق کسی ناگوار رشتے سے عافیت کے ساتھ نکل آنے کی صورت ہے۔اس کا غلط استعمال روکنے کے لئے بیداری لانا ضروری ہے۔ قانون اسی لئے بنائے جاتے ہیں کہ لوگ قانون کے مطابق اپنے آپ کو ڈھا لیں نہ کہ لوگوں کی طبیعت کے مطابق قانون بدلا جائے۔ تین طلاق کو ختم کرنے کی نیت ٹھیک نہیں کیونکہ اگر کوئی شخص غصے میں کسی کو قتل کردے تو کیا حکومت آئین کی دفعہ 302کو بدلنے کی کوشش کرے گی۔اس کا سیدھا جواب نہیں ہے کیونکہ قانون تو ہر حال میں رہے گا۔قانون کی خلاف ورزی یا اس کا غلط استعمال روکنے کے لئے بیداری لانے کی ضرورت ہے اور اس پر کام ہونا چاہئے۔
COMMENTS